Skip to main content

صبح صبح گھسڑ گھسڑ کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی میں نے رضائی صبح صبح گھسڑ گھسڑ کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئ


 صبح صبح گھسڑ گھسڑ کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی میں نے رضائی صبح صبح گھسڑ گھسڑ کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی۔

 میں نے رضائی کے ایک کونے سے دیکھا میری بیوی ادھر ادھر پھر رہی ہے

کمرے کی مین لائٹس بجھی ہوئی تھیں، اور باتھ روم کی ہلکی لائٹ روشن تھی۔ میں نے کھڑکیوں کے شیشوں کو دیکھا

 باہر ابھی اندھیرا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کوئی پانچ پونے پانچ بجے کا وقت ہو گا۔


میں کچی پکی نیند میں اٹھا اور واش روم چلا گیا۔ میں نے دیکھا وہ زارا کی یونیفارم پریس کر رہی ہے

میرے ذہن میں اس کی ستائش اور پذیرائی کے دو تین جملے آئے ”کونٹریبیوشن تو ہے نا یہ بھی

 اور شائد بہت بڑی۔ ساری زندگی اسی طرح کیا ہے، کبھی بچوں کو میلی یا بغیر استری یونیفارم میں سکول نہیں بھیجا ہر روز یونیفارم واش کرنا اور رات کو پریس کر کے سونا اس کی روٹین میں شامل رہا “۔


سردی کے احساس سے میرا سارا جسم کپکپا اٹھا

 میں بازو اکڑا کر سردی کے احساس کو کم کرتا ہوا  پھر لیٹ گیا۔ رضائی تھوڑی سی ٹھنڈی ہو چکی تھی

 لیکن کافی حد تک گرم ہی تھی۔ ایک دو جھرجھریاں لینے کے بعد میں اپنے آپ کو اپنی بیوی کا ممنون اور احسانمند محسوس کرتا کرتا، دوبارہ سو گیا۔


دراصل زارا ابھی خود سو رہی تھی

اور میرا خیال تھا پانچ ابھی نہیں بجے۔ پانچ بجے تو وہ اٹھ کر تیاری پکڑ لیتی ہے، اور ساڑھے پانچ بجے حسن کا الارم بول اٹھتا ہے

 مجھے عام طور پر چھ بجے جگایا جاتا ہے، اور میں پندرہ بیس منٹ میں تیار ہو کر حسن کو بس سٹاپ تک چھوڑنے چلا جاتا ہوں۔


مجھے سوئے ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گذرے ہوں گے، کہ مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی:

”حسن کے پاپا، گیزر نہیں چل رہا اس کا الارمنگ لہجہ کچھ اتنا تیز تھا، کہ مجھے لگا میں سویا ہی نہیں تھا۔

”کیوں، کیا ہوا میں نے اسے اپنے سرھانے کھڑے دیکھ کر پوچھا۔

”پتہ نہیں رات ٹینکی میں پانی ختم ہو گیا تھا

 اور گیس بھی چلی گئی تھی۔ میرے خیال میں گیس نہیں جل رہی گیزر میں“۔

”اچھا ٹینکی بھری ہے ابھی  میں رضائی ایک طرف کے کر چارپائی پر اٹھ بیٹھا۔

”بھر رہی ہے لیکن گیزر والی ٹونٹی میں پانی نہیں آ رہا“۔

”یار پانی تو آنا چاہئے، ٹھنڈا ہی آئے  میں نے اس کی طرف دیکھ کر اپنی بات میں ریزن سمجھانے کی کوشش کی۔

”بہرحال پانی بھی نہیں آ رہا وہ سختی سے بولی۔

”اچھا اب کیا کروں پھر  میں نے جھلا کر پوچھا۔

”اوپر جا کر دیکھیں، کسی ہمسائے کے بچے نے والو نہ بند کر دیا ہو گیزر کے پانی کا“۔


مجھے ایک دم کچیچی سی چڑھی۔ بھلا ہمسائے کے بچے کو کیا ضرورت ہے والو بند کرنے کی

 لیکن مجھے اپنی بیوی کی لاجک، اور ریزنز کا خوب پتہ تھا۔

”اچھا دیکھتا ہوں جا کر میں کھج کر بولتا ہوا اوپر ممٹی میں چلا گیا۔

”ہوڈی چڑھا لو سر پر مجھے اپنے پیچھے ممٹی میں اس کی آواز آئی۔


میں نے ہوڈی چڑھا لی 

ان سردیوں میں تو میں دو دو ٹراؤزر اور دو دو جرسیوں کے اوپر جیکٹیں پہن کر سوتا رہا ہوں۔ کوئی کمپرومائز نہیں کیا میں نے سردی سے۔

بہرحال رات کے اس پہر میں نے ممٹی کے دروازے کو ہاتھ لگایا تو جیسے میرے پورے جسم میں کپکپی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

میں نے دھکے سے ممٹی کا دروازہ کھولا تو جیسے رات کے سناٹے میں پہاڑ گرا دیا ہو

دروازہ کھٹاک سے کھلا اور دیوار سے جا ٹکرایا۔


میں چھت پر نکلا تو سامنے دھند ہی دھند تھی۔ مجھے اپنی چھت کی منڈیریں تک اوجھل نظر آ رہی تھیں

 ہر سمت ایک جیسی تھی۔ نہ کوئی مکان نظر آ رہا تھا، نہ کوئی ممٹی، اور نہ کوئی مسجد کا مینار

خاموشی سے محسوس ہو رہا تھا جیسے صبح ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔

میں نے دیکھا گیزر میں گیس جل رہی تھی

والو دیکھا وہ بھی اون تھا۔ گیزر کے پائپس میں پانی بہنے کی آواز آ رہی تھی 

مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔


”گیس تو جل رہی ہے، پانی بھی گرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا مجھے پائپس میں میں نے ٹھروں ٹھروں کرتے ہوئے نیچے اتر کر اپنی بیوی کو بتایا اور واپس اپنی رضائی میں گھس گیا۔

”والو چیک کیا تھا  وہ کچن میں جاتی جاتی بولی۔

”دیکھا تھا، مجھے تو اون ہی لگ رہا تھا

میں نے رضائی میں ٹھٹھرتے ہوئے جواب دیا۔

”پانی کیوں نہیں آ رہا پھر  اس نے کچن کا ٹیپ اون کر دیا۔

”یار ابھی پانی گر رہا ہے، کچھ دیر بعد بھر کر ٹیپس میں بھی آ جائے گا“ میں نے اپنا سا جواب دیا۔

”ٹیپ میں تو اسی وقت آ جاتا ہے

 اچھاوہ خاموش ہو گئی، اور میں اسی طرح پھر سو گیا۔


ابھی کوئی خواب شروع بھی نہ ہوا تھا، کہ مجھے اپنی بیوی کے حسن کو بولنے کی آواز سنائی دی۔

”تونے بھی آج ہی سر دھونا ہے

 پتہ ہے گرم پانی نہیں ہے اس لئے“ وہ تیز تیز سیڑھیاں چڑھتی اوپر آئی۔

”کیا ہوا ہے میں نے بیزار ہو کر پوچھا۔

”پانی کا ایک قطرہ نہیں آیا ابھی تک 

اور یہ ٹھنڈے پانی سے سر دھونے لگا ہے“۔

”یار حسن کیا مسئلہ ہے تمہیں“ میں نے اکتا کر کہا۔

”پاپا نہیں دھو رہا، ماما کو ایسے ہی لگ رہا تھا

 حسن چپ کر کے برش کرنے چلا گیا۔

”میں کہہ رہی ہوں، گیزر نہیں جل رہا

 اس کا والو بند ہے، میری کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔ بچوں نے پانی استعمال کرنا ہے، میں نے کچن کا کام کرنا ہے

تمہارے باپ کو سونے کی پڑی ہوئی ہے

 زارا، مجھے موبائل کی لائٹ اون کر کے دو، میں خود دیکھوں جا کرمیں ابھی دوبارہ لیٹا ہی تھا کہ مجھے ایک بار پھر اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔

”یار تم لوگوں کو تکلیف کیا ہے

تم لوگ آرام سے کیوں نہیں بیٹھ سکتے، چوتھی بار جگایا ہے مجھے۔ میں نے سارا دن کام کرنا ہے

میرا دماغ خراب ہو جائے گا، اتنی جلدی اٹھ کر“ میں چیخ کر اٹھا اور بغیر ہوڈی اوپر کیے دوبارہ ممٹی میں چلا گیا۔


دراصل مجھے ڈر تھا، کہ اگر میری بیوی اکیلی چلی گئی تو آ کر کہے گی مجھے سردی لگ گئی ہے


صبح صبح باہر نکل کر۔ بہتر ہے میں ساتھ چلا جاؤں، تاکہ کہوں میں بھی تو نکلا تھا سردی میں۔


بہرحال میرے ساتھ چڑھ کر اس نے آگ بھی جلتی ہوئی دیکھی گیزر کی، اور والو بھی۔ میں نے سب کچھ چیک کر کے دکھایا، کہ میرے حساب سے سب ٹھیک ہے۔

”ابھی گیزر بھرا نہیں ہے پوری طرح، بھر جائے گا، تو پانی آ جائے گا“ میں نے پھر وضاحت کی۔


نیچے اتر کر میں دوبارہ اپنی چارپائی کی طرف چلا گیا، اور وہ کچن میں۔

لو میں نے کہا تھا نا، والو بند ہے

 اب والو کھلا ہے، تو پانی آیا ہے۔ پہلے یہ دیکھ کر ہی نہیں آیا تھا تمہارا باپ

ایسے ہی آ کر کہہ دیا تھا مجھے سب ٹھیک ہے۔ اب میرے سامنے چیک کیا ہے، اور اب کھلا ہے، تو پانی آ نہیں گیا۔ میرے سارے دشمن ہیں، جیسے میں کچھ اپنے لئے کرتی ہوں۔ کیا بچے اور کیا باپ۔“

اس نے بڑبڑا کر ساری سچوایشن زارا کو ایکسپلین کر دی۔

”یار حسن، میں نے کچھ نہیں چھیڑا

 والو جیسا تھا، ویسے ہی ہے، پتہ نہیں کیا ہے یہ تیری ماما“ میں نے سرگوشی میں کہا۔

”پاپا مجھے پتہ ہے ماما ایسے ہی کرتی ہیں

 آپ نہ بولیں“ حسن نے ہلکے سے انداز میں کہا۔

”اوئے کیا سکھا رہے ہو میرے لال کو“ وہ نیچے کچن سے بولی۔

”چلو!“ میں ایک بار پھر اپنی رضائی میں جا لیٹا اور منہ سر لپیٹ لیا۔

”ماما کچھ نہیں، آپ میرا بریک فاسٹ تیار کر دیں جلدی سے“ حسن نے آواز دی


یہ لڑائی نہیں ہے، یہ بدزبانی نہیں ہے یہ ایک عام سا گھریلو ماحول ہے، اس کی خوبصورتی کو پہچانیں۔ کے ایک کونے سے دیکھا میری بیوی ادھر ادھر پھر رہی ہے

کمرے کی مین لائٹس بجھی ہوئی تھیں، اور باتھ روم کی ہلکی لائٹ روشن تھی۔ میں نے کھڑکیوں کے شیشوں کو دیکھا، باہر ابھی اندھیرا تھا

مجھے لگ رہا تھا کوئی پانچ پونے پانچ بجے کا وقت ہو گا۔


میں کچی پکی نیند میں اٹھا اور واش روم چلا گیا۔ میں نے دیکھا وہ زارا کی یونیفارم پریس کر رہی ہے

میرے ذہن میں اس کی ستائش اور پذیرائی کے دو تین جملے آئے ”کونٹریبیوشن تو ہے نا یہ بھی، اور شائد بہت بڑی

ساری زندگی اسی طرح کیا ہے، کبھی بچوں کو میلی یا بغیر استری یونیفارم میں سکول نہیں بھیجا

 ہر روز یونیفارم واش کرنا اور رات کو پریس کر کے سونا اس کی روٹین میں شامل رہا ہے“۔


سردی کے احساس سے میرا سارا جسم کپکپا اٹھا

میں بازو اکڑا کر سردی کے احساس کو کم کرتا ہوا  پھر لیٹ گیا۔ رضائی تھوڑی سی ٹھنڈی ہو چکی تھی، لیکن کافی حد تک گرم ہی تھی۔ ایک دو جھرجھریاں لینے کے بعد میں اپنے آپ کو اپنی بیوی کا ممنون اور احسانمند محسوس کرتا کرتا، دوبارہ سو گیا۔


دراصل زارا ابھی خود سو رہی تھی، اور میرا خیال تھا پانچ ابھی نہیں بجے۔ پانچ بجے تو وہ اٹھ کر تیاری پکڑ لیتی ہے

اور ساڑھے پانچ بجے حسن کا الارم بول اٹھتا ہے۔ مجھے عام طور پر چھ بجے جگایا جاتا ہے، اور میں پندرہ بیس منٹ میں تیار ہو کر حسن کو بس سٹاپ تک چھوڑنے چلا جاتا ہوں۔


مجھے سوئے ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گذرے ہوں گے، کہ مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی:

”حسن کے پاپا، گیزر نہیں چل رہا

 اس کا الارمنگ لہجہ کچھ اتنا تیز تھا، کہ مجھے لگا میں سویا ہی نہیں تھا۔

”کیوں، کیا ہوا؟“ میں نے اسے اپنے سرھانے کھڑے دیکھ کر پوچھا۔

”پتہ نہیں رات ٹینکی میں پانی ختم ہو گیا تھا اور گیس بھی چلی گئی تھی۔ میرے خیال میں گیس نہیں جل رہی گیزر میں“۔

”اچھا ٹینکی بھری ہے ابھی“ میں رضائی ایک طرف کے کر چارپائی پر اٹھ بیٹھا۔

”بھر رہی ہے، لیکن گیزر والی ٹونٹی میں پانی نہیں آ رہا“۔

”یار پانی تو آنا چاہئے، ٹھنڈا ہی آئے“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر اپنی بات میں ریزن سمجھانے کی کوشش کی۔

”بہرحال پانی بھی نہیں آ رہاوہ سختی سے بولی۔

”اچھا اب کیا کروں پھر؟“ میں نے جھلا کر پوچھا۔

”اوپر جا کر دیکھیں، کسی ہمسائے کے بچے نے والو نہ بند کر دیا ہو گیزر کے پانی کا“۔


مجھے ایک دم کچیچی سی چڑھی

بھلا ہمسائے کے بچے کو کیا ضرورت ہے والو بند کرنے کی۔ لیکن مجھے اپنی بیوی کی لاجک، اور ریزنز کا خوب پتہ تھا۔

”اچھا دیکھتا ہوں جا ک

 میں کھج کر بولتا ہوا اوپر ممٹی میں چلا گیا۔

”ہوڈی چڑھا لو سر پر“ مجھے اپنے پیچھے ممٹی میں اس کی آواز آئی۔


میں نے ہوڈی چڑھا لی۔ ان سردیوں میں تو میں دو دو ٹراؤزر اور دو دو جرسیوں کے اوپر جیکٹیں پہن کر سوتا رہا ہوں۔ کوئی کمپرومائز نہیں کیا میں نے سردی سے۔

بہرحال رات کے اس پہر، میں نے ممٹی کے دروازے کو ہاتھ لگایا تو جیسے میرے پورے جسم میں کپکپی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

میں نے دھکے سے ممٹی کا دروازہ کھولا تو جیسے رات کے سناٹے میں پہاڑ گرا دیا ہو۔ دروازہ کھٹاک سے کھلا اور دیوار سے جا ٹکرایا۔


میں چھت پر نکلا تو سامنے دھند ہی دھند تھی۔ مجھے اپنی چھت کی منڈیریں تک اوجھل نظر آ رہی تھیں۔ ہر سمت ایک جیسی تھی۔ نہ کوئی مکان نظر آ رہا تھا، نہ کوئی ممٹی، اور نہ کوئی مسجد کا مینار۔ خاموشی سے محسوس ہو رہا تھا جیسے صبح ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔

میں نے دیکھا گیزر میں گیس جل رہی تھی۔ والو دیکھا وہ بھی اون تھا۔ گیزر کے پائپس میں پانی بہنے کی آواز آ رہی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔


”گیس تو جل رہی ہے، پانی بھی گرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا مجھے پائپس میں“ میں نے ٹھروں ٹھروں کرتے ہوئے نیچے اتر کر اپنی بیوی کو بتایا اور واپس اپنی رضائی میں گھس گیا۔

”والو چیک کیا تھا“ وہ کچن میں جاتی جاتی بولی۔

”دیکھا تھا، مجھے تو اون ہی لگ رہا تھا“ میں نے رضائی میں ٹھٹھرتے ہوئے جواب دیا۔

”پانی کیوں نہیں آ رہا پھر؟“ اس نے کچن کا ٹیپ اون کر دیا۔

”یار ابھی پانی گر رہا ہے، کچھ دیر بعد بھر کر ٹیپس میں بھی آ جائے گا“ میں نے اپنا سا جواب دیا۔

”ٹیپ میں تو اسی وقت آ جاتا ہے، اچھا“ وہ خاموش ہو گئی، اور میں اسی طرح پھر سو گیا۔


ابھی کوئی خواب شروع بھی نہ ہوا تھا، کہ مجھے اپنی بیوی کے حسن کو بولنے کی آواز سنائی دی۔

”تونے بھی آج ہی سر دھونا ہے، پتہ ہے گرم پانی نہیں ہے اس لئے“ وہ تیز تیز سیڑھیاں چڑھتی اوپر آئی۔

”کیا ہوا ہے؟“ میں نے بیزار ہو کر پوچھا۔

”پانی کا ایک قطرہ نہیں آیا ابھی تک، اور یہ ٹھنڈے پانی سے سر دھونے لگا ہے“۔

”یار حسن کیا مسئلہ ہے تمہیں“ میں نے اکتا کر کہا۔

”پاپا نہیں دھو رہا، ماما کو ایسے ہی لگ رہا تھا“ حسن چپ کر کے برش کرنے چلا گیا۔

”میں کہہ رہی ہوں، گیزر نہیں جل رہا، اس کا والو بند ہے، میری کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔ بچوں نے پانی استعمال کرنا ہے، میں نے کچن کا کام کرنا ہے، تمہارے باپ کو سونے کی پڑی ہوئی ہے۔ زارا، مجھے موبائل کی لائٹ اون کر کے دو، میں خود دیکھوں جا کر“ میں ابھی دوبارہ لیٹا ہی تھا کہ مجھے ایک بار پھر اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔

”یار تم لوگوں کو تکلیف کیا ہے، تم لوگ آرام سے کیوں نہیں بیٹھ سکتے، چوتھی بار جگایا ہے مجھے۔ میں نے سارا دن کام کرنا ہے، میرا دماغ خراب ہو جائے گا، اتنی جلدی اٹھ کر“ میں چیخ کر اٹھا اور بغیر ہوڈی اوپر کیے دوبارہ ممٹی میں چلا گیا۔


دراصل مجھے ڈر تھا، کہ اگر میری بیوی اکیلی چلی گئی تو آ کر کہے گی مجھے سردی لگ گئی ہے، صبح صبح باہر نکل کر۔ بہتر ہے میں ساتھ چلا جاؤں، تاکہ کہوں میں بھی تو نکلا تھا سردی میں۔


بہرحال میرے ساتھ چڑھ کر اس نے آگ بھی جلتی ہوئی دیکھی گیزر کی، اور والو بھی۔ میں نے سب کچھ چیک کر کے دکھایا، کہ میرے حساب سے سب ٹھیک ہے۔

”ابھی گیزر بھرا نہیں ہے پوری طرح، بھر جائے گا، تو پانی آ جائے گا“ میں نے پھر وضاحت کی۔


نیچے اتر کر میں دوبارہ اپنی چارپائی کی طرف چلا گیا، اور وہ کچن میں۔

لو میں نے کہا تھا نا، والو بند ہے، اب والو کھلا ہے، تو پانی آیا ہے۔ پہلے یہ دیکھ کر ہی نہیں آیا تھا تمہارا باپ۔ ایسے ہی آ کر کہہ دیا تھا مجھے سب ٹھیک ہے۔ اب میرے سامنے چیک کیا ہے، اور اب کھلا ہے، تو پانی آ نہیں گیا۔ میرے سارے دشمن ہیں، جیسے میں کچھ اپنے لئے کرتی ہوں۔ کیا بچے اور کیا باپ۔“

اس نے بڑبڑا کر ساری سچوایشن زارا کو ایکسپلین کر دی۔

”یار حسن، میں نے کچھ نہیں چھیڑا، والو جیسا تھا، ویسے ہی ہے، پتہ نہیں کیا ہے یہ تیری ماما“ میں نے سرگوشی میں کہا۔

”پاپا مجھے پتہ ہے ماما ایسے ہی کرتی ہیں، آپ نہ بولیں“ حسن نے ہلکے سے انداز میں کہا۔

”اوئے کیا سکھا رہے ہو میرے لال کو“ وہ نیچے کچن سے بولی۔

”چلو!“ میں ایک بار پھر اپنی رضائی میں جا لیٹا اور منہ سر لپیٹ لیا۔

”ماما کچھ نہیں، آپ میرا بریک فاسٹ تیار کر دیں جلدی سے“ حسن نے آواز دی


یہ لڑائی نہیں ہے، یہ بدزبانی نہیں ہے،

یہ ایک عام سا گھریلو ماحول ہے، اس کی خوبصورتی کو پہچانیں۔

Comments

Popular posts from this blog

وزرائے تعلیم کا اجلاس، گرمیوں کی چھٹیاں محدود، کسی طالب علم کو بنا امتحان پرموٹ نہ کرنے کا فیصلہ..................

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیرصدارت  ; ہونے والے بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں رواں سال کسی بھی;,  طالب علم کو بنا امتحان پرموٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شفقت محمود کی زیر صدارت ہونے والے  ;   اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے تعلیم کے علاوہ کشمیر اور گلگت ;  بلتستان کے وزرائے تعلیم نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ رواں سال کسی بھی طالب علم کو بغیر امتحان کے پرموٹ نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس نے;  اس بات پر اتفاق کیا کہ تمام کلاسز کے امتحانات ہر صورت منعقد کیے جائیں گے۔   اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ دسویں اور,;     بارہویں کے امتحانات جون میں لیے جائیں گے۔ رزلٹ میں تاخیر پر جامعات پروویژنل سرٹیفکیٹ,;    کی بنیاد پر داخلے دیں گی۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ,;  موسم گرما کی تعطیلات کم ہوں گی اور اس بارے میں فیصلہ صوبے کریں گے۔

بوائے فرینڈ کو سرعام شادی کی پیشکش کرنا مہنگا پڑگیا، لڑکی نے تھپڑ دے مارا، لیکن وجہ شادی سے انکار نہ تھی...............

  ایک نوجوان نے ڈزنی لینڈ کی سیر کے دوران اپنی گرل فرینڈ کو شادی کی پیشکش کرنے کی رومانوی منصوبہ بندی کر رکھی تھی لیکن;  جب اس نے اپنے دوستوں کے سامنے گرل فرینڈ کے آگے ایک گھٹنے پر جھک کر شادی کی پیشکش کی تو ایسا کام ہو گیا کہ اس نے سوچا بھی نہ تھا۔  ڈیلی سٹار کے مطابق کیڈ نامی اس نوجوان نے,  جب شادی کی پیشکش کی تو اس;  کی گریشی او نیل نامی گرل فرینڈ نے اسے ہلکے سے ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ اس تھپڑ کی وجہ شادی سے انکار نہیں تھا.  بلکہ گریشی سمجھ بیٹھی تھی;  کہ شاید وہ اس سے مذاق کر رہا ہے۔ گریشی اور کیڈ کے دوست اس واقعے کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ گریشی نے یہ ویڈیو اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ پر پوسٹ کی ہے;.  جس میں اس نے لکھا ہے کہ ”کیڈ نے ڈزنی لینڈ میں مجھے شادی  کی پیشکش کی اور میں سمجھ بیٹھی کہ,  وہ میرا مذاق اڑا رہا ہے اور پھر یہ کام ہو گیا۔“ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ,  گریشی تھپڑ مارتے ہوئے کیڈ سے کہتی ہے کہ ’ایسا مت کرو‘ اور جواب میں کیڈ کہتا ہے کہ’ نہیں، اس بار میں مذاق نہیں کر رہا‘     اور یہ کہتے ہی وہ جیب سے انگوٹھی نکال ...

سونے کی قیمت میں معمولی کمی...............

  ملک بھرمیں سونے کی فی تولہ قیمت مزید 100 روپے کم ہوئی ہے۔ سندھ صرافہ بازار جیولرز ایسوسی ایشن کے ;  مطابق 100 روپے ; کمی کے بعد ; ملک میں فی تولہ سونے کی قدر ایک ; لاکھ 12 ہزار;  روپے ہوگئی ہے۔10 گرام سونے کی قدر 86 روپے کم ہوکر;  96 ہزار 22 روپے ہو گئی۔\