پڑھیے اور آپ گوگل پہ جا کر دنیا کا نقشہ کھولیے۔۔۔
اور پھر کورونا وائرس کا زرا پیٹرن دیکھیں! سب سے پہلے یہ چین میں ظاہر ہوا، پڑوس کے پاکستان اور وسط ایشیائی مسلم ریاستوں کو چھوڑ کر روس، بھارت ایران، مشرقِ بعید اور جنوب مشرق میں جا داخل ہوا۔ ایران سے غیر ملکی شیعہ زائرین کے ذریعے مسلم ممالک میں پھیلا لیکن تاحال کسی مسلم ملک سے کورونا وائرس کے باعث کوئی بڑی ہلاکت خیزی ریکارڈ نہیں ہوئی ,یعنی پاکستان، وسط ایشیائی ریاستیں اور عرب ممالک اس موت کے تھپڑ سے بچے رہے۔
اور پھر یہ نمودار ہوا یورپ میں، اٹلی میں تباہی مچا کر پورے یورپ کا دیوالیہ نکال چھوڑا۔۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پہ یورپ کا دروازہ، ترکی اس دیمک سے محفوظ رہا۔۔۔ اور یورپ کے بعد یہ قہر پہنچا امریکہ میں، پہلے شمالی امریکہ اسکی زد میں آیا اور پھر جنوبی امریکہ۔۔۔ حتی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ بھی اس وائرس کا شکار ہو چکی ہیں، اسی طرح امریکی میڈیا میں صدر ٹرمپ کے ٹیسٹ کروانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ خاص کر برازیلی وزیراعظم میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کورونا وائرس کی تشخیص ہو جانے کے بعد سے۔۔۔ دوسری طرف کینیڈا کے وزیراعظم کی بیوی کو بھی کورونا اپنا شکار بنا چکا ہے۔۔۔۔
غور کریں مندرجہ بالا پیٹرن پہ اور نقشے کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ مسلم ممالک کیسے اس تباہی سے محفوظ رہے؟ سوائے تھوڑے بہت نقصان کے کسی مسلم ملک کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔۔۔ گویا قدرت نے مسلمانوں کا کان مروڑا اور تنبیہ دے کر چھوڑ دیا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اسلام و مسلم دشمن ممالک، سپر پاورز، مسلمانوں کے قاتل، الحاد و زندقہ کے دلدادہ اور معیشت و سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے تاج بادشاہ!
سب کے سب تھر تھر کانپ رہے ہیں۔۔۔ ان کا پیسہ، طاقت، قوت، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجادات، گھٹنے ٹیک چکی ہیں۔ ان کی گلیاں، چوک چوراہے، بازار و منڈیاں اور گناہوں کے مراکز۔۔۔ سب ویران پڑ چکے ہیں!
غور کیجیے کہ یہ کیا ہے؟
اسے کہتے ہیں اللہ کا کوڑا۔۔۔ جو برستا ہے تو کوئی جائے پناہ نہیں ملتی، اور نہ ہی کوئی راہِ فرار!
بہرحال۔۔۔ جیسے الحاد و لادینیت کے علمبردار، امریکہ کے صدر کی جانب سے دعاؤں کی اپیل کی گئی ہے۔۔۔ بعید نہیں کہ ہلاکت خیزی کچھ اور بڑھی اور مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو یورپ و امریکہ کے ملحدین کی ایک بڑی تعداد مذہب کی طرف رجوع کر جائے گی!
لیکن اس سب میں مسلمین کے لیے بھی ایک سبق ہے۔۔۔ کہ حی علی الدین!
ورنہ کوڑے بہت!
"کرونا وائرس کا علاج آ پ خود ہیں"
مانا کہ چین میں کروناوائرس کے حوالے سے کافی ہلاکتیں ہوئی ہیں اسی وجہ سے کروناوائرس کے خوف نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس قدر بےچینی پیدا ہوگئی ہے کہ اس کے مریض علاج کے لیے بھی نہیں جانا چاہتےتشخیص تک نہیں کروانا چاہتے جو کہ غلط ہے.
اگر دیکھا جائے تو
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کروناوائرس اب تک سامنے آنے والے تمام وائرسز میں سب سے کم خطرناک ہے۔ اور اس میں انفیکشن کے بعد موت کے امکانات محض 3 فیصد ہیں یعنی اگر بروقت اسکی تشخیص کروالی جائے اور اس پہ دھیان رکھا جائے اور اپنی "اعصاب" پر قابو پایا جائے تو صحت مند ہونے کے امکانات 97% ہیں.
اب تک سامنے آنے والے وائرسز جن میں:
وائرس کا نام: انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات
سارس : 36 فیصد
زیکا: 20 فیصد
ایبولا: 90 فیصد
ماربرگ بخار: 88 فیصد
نپاہ: 75 فیصد
کانگو بخار: 40 فیصد
انفلوئنزا: 13 فیصد
کروناوائرس: 3 فیصد
اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کرونا سے اتنی ذیادہ "ہلاکتیں" کیوں ہوئیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کروناوائرس میں چین میں اکثر ہلاکتیں ان لوگوں کی ہوئیں جن کے اندر پہلے سے ہی کروناوائرس پَل رہا تھا اور انہیں اور دنیا کو ابھی کروناوائرس کا علم نہیں ہوا تھا.
اس لیے جب تک کروناوائرس کی تشخیص ہوتی ان میں کروناوائرس پھیل چکا تھا اور ایک بات یہاں یاد رکھیے یہ صرف کروناوائرس کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ آپکو علم نہ ہو تو ہلکا سا بخار بھی اندر پلتے پلتے بڑی بیماری بن سکتا ہے کرونا ایسے ہی لوگوں کے اندر پلتا رہا جس سے ہلاکتیں ہوئی ہیں اب آپ چین میں پہلے کے مقابلے میں شرحِ اموات دیکھیے تو کافی حد تک کم ہوچکی ہیں یہاں تک کہ کئی ہسپتال بھی بند کر دئیے گئے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی چین میں حالات معمول پر آجائیں گے.
یہاں ہم سب کا ایک فرض بنتا ہے بحیثیتِ انسان، بحیثیتِ مسلمان اور بحیثیتِ ایک اسلامی مملکت کے شہری ہوتے ہوئے کہ ہم میں سے اللّٰہ نہ کرے، اگر کہیں بھی کسی کو کھانسی، زکام جیسی علامات ظاہر ہوں تو قریبیِ مرکزِ صحت جا کر اپنا معائنہ ضرور کرائیں یہ نہیں کہہ رہا کہ اگر کھانسی زکام ہے تو ہم کروناوائرس کا شکار ہیں ہرگز نہیں، لیکن کھانسی زکام کا علاج بھی ضروری ہے.
دوسری بات یہ کہ اگر پھر بھی کسی شخص میں اللّٰہ نہ کرے کہ اس حوالے سے علامات موجود بھی ہوں تو گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اگر خود سے پیار ہے اور خود سے بڑھ اپنی فیملی سے پیار ہے تو مضبوط ارادے اور اللّٰہ سے بہتر سے بہترین کی امید رکھتے ہوئے جائیے اور خود ہی اس کے علاج میں دلچسپی لیجیے کیونکہ اسکے بروقت علاج سے نہ صرف مریض بلکہ مریض کے ساتھ رہنے اور ملنے جلنے والے تمام افراد محفوظ رہ سکتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے کہ آپ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی حفاظت یقینی بناتے ہوئے اپنا علاج کرواتے ہیں اور اس علاج میں بھی آپکی قوتِ مدافعت,
اللّٰہ پاک پہ یقین اور ٹھیک ہونے کی قوی امید ہی آپکو فوراً سے بھی پہلے صحت کی جانب لا سکتا ہے.
تو ڈرئیے نہیں، گھبرائیے نہیں، آئیے تشخیص کروائیے اپنے اور اپنے پیاروں کو اس وائرس سے محفوظ بنائیے تاکہ ہم خود کو اپنے پیاروں کو، اپنے پیارے وطن پاکستان کو اور دنیا کو اس مرض سے بچاسکیں.
اپنی زندگی میں میں نے ہمیشہ ایک سوچ کو خود پہ ایک خبط کی طرح طاری رکھا کہ
" ہم کیسے مسلمان ہیں ہمیں اپنے اللّٰہ پہ کیسا یقین ہے کہ اللّٰہ پاک سے صرف برے کی ہی امید کرتے ہیں، کہ کوئی اپنا بیمار ہو تو ہم ہمیشہ ذہن میں یہ ہی لیکر کیوں پھرتے ہیں کہ خدانخواستہ ان کو کچھ ہو نہ جائے یا پھر یہ ہمیں چھوڑ نہ جائیں، کوئی پریشانی آئے تو ہم ہمیشہ منفی سوچ ہی کیوں رکھتے ہیں یہ کیوں سوچتے ہیں کہ سب کچھ بُرا ہی ہوگا سب ختم ہی ہوگا.
کیا ہم اللّٰہ پاک سے صرف بُرے کی ہی امید کرسکتے ہیں؟ ہم سب ختم ہونے کی امید کرسکتے ہیں؟ ہم اللّٰہ سے صحت اور اچھا ہونے کی امید کیوں نہیں کرسکتے؟
وہ تو کہتا ہے نا کہ،،
"اے ابن آ دم تو مانگ کر تو دیکھ، میں تم پر عنایات کی بارش نہ کر دوں تو کہنا"
تو پھر ربّ سے اچھی امید کے ساتھ مانگو۔
کوئی بھی بیماری کوئی بھی پریشانی اللّٰہ پاک کی طرف سے آتی ہے تو یقین کیجیے اللّٰہ پاک اس بیماری اس پریشانی کو اٹھانے کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ منفی سوچوں کو خود پہ ہاوی کرنے کی بجائے مثبت سوچیے اللّٰہ سے مثبت امیدیں رکھیے پھر ان شاءاللّٰہ زندگی کو پرسکون بنتا دیکھیے.
اللّٰہ پاک آ پ سب کا حامی و ناصر ہو
#
اور پھر کورونا وائرس کا زرا پیٹرن دیکھیں! سب سے پہلے یہ چین میں ظاہر ہوا، پڑوس کے پاکستان اور وسط ایشیائی مسلم ریاستوں کو چھوڑ کر روس، بھارت ایران، مشرقِ بعید اور جنوب مشرق میں جا داخل ہوا۔ ایران سے غیر ملکی شیعہ زائرین کے ذریعے مسلم ممالک میں پھیلا لیکن تاحال کسی مسلم ملک سے کورونا وائرس کے باعث کوئی بڑی ہلاکت خیزی ریکارڈ نہیں ہوئی ,یعنی پاکستان، وسط ایشیائی ریاستیں اور عرب ممالک اس موت کے تھپڑ سے بچے رہے۔
اور پھر یہ نمودار ہوا یورپ میں، اٹلی میں تباہی مچا کر پورے یورپ کا دیوالیہ نکال چھوڑا۔۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پہ یورپ کا دروازہ، ترکی اس دیمک سے محفوظ رہا۔۔۔ اور یورپ کے بعد یہ قہر پہنچا امریکہ میں، پہلے شمالی امریکہ اسکی زد میں آیا اور پھر جنوبی امریکہ۔۔۔ حتی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ بھی اس وائرس کا شکار ہو چکی ہیں، اسی طرح امریکی میڈیا میں صدر ٹرمپ کے ٹیسٹ کروانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ خاص کر برازیلی وزیراعظم میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کورونا وائرس کی تشخیص ہو جانے کے بعد سے۔۔۔ دوسری طرف کینیڈا کے وزیراعظم کی بیوی کو بھی کورونا اپنا شکار بنا چکا ہے۔۔۔۔
غور کریں مندرجہ بالا پیٹرن پہ اور نقشے کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ مسلم ممالک کیسے اس تباہی سے محفوظ رہے؟ سوائے تھوڑے بہت نقصان کے کسی مسلم ملک کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔۔۔ گویا قدرت نے مسلمانوں کا کان مروڑا اور تنبیہ دے کر چھوڑ دیا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اسلام و مسلم دشمن ممالک، سپر پاورز، مسلمانوں کے قاتل، الحاد و زندقہ کے دلدادہ اور معیشت و سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے تاج بادشاہ!
سب کے سب تھر تھر کانپ رہے ہیں۔۔۔ ان کا پیسہ، طاقت، قوت، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجادات، گھٹنے ٹیک چکی ہیں۔ ان کی گلیاں، چوک چوراہے، بازار و منڈیاں اور گناہوں کے مراکز۔۔۔ سب ویران پڑ چکے ہیں!
غور کیجیے کہ یہ کیا ہے؟
اسے کہتے ہیں اللہ کا کوڑا۔۔۔ جو برستا ہے تو کوئی جائے پناہ نہیں ملتی، اور نہ ہی کوئی راہِ فرار!
بہرحال۔۔۔ جیسے الحاد و لادینیت کے علمبردار، امریکہ کے صدر کی جانب سے دعاؤں کی اپیل کی گئی ہے۔۔۔ بعید نہیں کہ ہلاکت خیزی کچھ اور بڑھی اور مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو یورپ و امریکہ کے ملحدین کی ایک بڑی تعداد مذہب کی طرف رجوع کر جائے گی!
لیکن اس سب میں مسلمین کے لیے بھی ایک سبق ہے۔۔۔ کہ حی علی الدین!
ورنہ کوڑے بہت!
"کرونا وائرس کا علاج آ پ خود ہیں"
مانا کہ چین میں کروناوائرس کے حوالے سے کافی ہلاکتیں ہوئی ہیں اسی وجہ سے کروناوائرس کے خوف نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس قدر بےچینی پیدا ہوگئی ہے کہ اس کے مریض علاج کے لیے بھی نہیں جانا چاہتےتشخیص تک نہیں کروانا چاہتے جو کہ غلط ہے.
اگر دیکھا جائے تو
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کروناوائرس اب تک سامنے آنے والے تمام وائرسز میں سب سے کم خطرناک ہے۔ اور اس میں انفیکشن کے بعد موت کے امکانات محض 3 فیصد ہیں یعنی اگر بروقت اسکی تشخیص کروالی جائے اور اس پہ دھیان رکھا جائے اور اپنی "اعصاب" پر قابو پایا جائے تو صحت مند ہونے کے امکانات 97% ہیں.
اب تک سامنے آنے والے وائرسز جن میں:
وائرس کا نام: انفیکشن کے بعد مرنے کے امکانات
سارس : 36 فیصد
زیکا: 20 فیصد
ایبولا: 90 فیصد
ماربرگ بخار: 88 فیصد
نپاہ: 75 فیصد
کانگو بخار: 40 فیصد
انفلوئنزا: 13 فیصد
کروناوائرس: 3 فیصد
اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کرونا سے اتنی ذیادہ "ہلاکتیں" کیوں ہوئیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کروناوائرس میں چین میں اکثر ہلاکتیں ان لوگوں کی ہوئیں جن کے اندر پہلے سے ہی کروناوائرس پَل رہا تھا اور انہیں اور دنیا کو ابھی کروناوائرس کا علم نہیں ہوا تھا.
اس لیے جب تک کروناوائرس کی تشخیص ہوتی ان میں کروناوائرس پھیل چکا تھا اور ایک بات یہاں یاد رکھیے یہ صرف کروناوائرس کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ آپکو علم نہ ہو تو ہلکا سا بخار بھی اندر پلتے پلتے بڑی بیماری بن سکتا ہے کرونا ایسے ہی لوگوں کے اندر پلتا رہا جس سے ہلاکتیں ہوئی ہیں اب آپ چین میں پہلے کے مقابلے میں شرحِ اموات دیکھیے تو کافی حد تک کم ہوچکی ہیں یہاں تک کہ کئی ہسپتال بھی بند کر دئیے گئے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی چین میں حالات معمول پر آجائیں گے.
یہاں ہم سب کا ایک فرض بنتا ہے بحیثیتِ انسان، بحیثیتِ مسلمان اور بحیثیتِ ایک اسلامی مملکت کے شہری ہوتے ہوئے کہ ہم میں سے اللّٰہ نہ کرے، اگر کہیں بھی کسی کو کھانسی، زکام جیسی علامات ظاہر ہوں تو قریبیِ مرکزِ صحت جا کر اپنا معائنہ ضرور کرائیں یہ نہیں کہہ رہا کہ اگر کھانسی زکام ہے تو ہم کروناوائرس کا شکار ہیں ہرگز نہیں، لیکن کھانسی زکام کا علاج بھی ضروری ہے.
دوسری بات یہ کہ اگر پھر بھی کسی شخص میں اللّٰہ نہ کرے کہ اس حوالے سے علامات موجود بھی ہوں تو گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اگر خود سے پیار ہے اور خود سے بڑھ اپنی فیملی سے پیار ہے تو مضبوط ارادے اور اللّٰہ سے بہتر سے بہترین کی امید رکھتے ہوئے جائیے اور خود ہی اس کے علاج میں دلچسپی لیجیے کیونکہ اسکے بروقت علاج سے نہ صرف مریض بلکہ مریض کے ساتھ رہنے اور ملنے جلنے والے تمام افراد محفوظ رہ سکتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے کہ آپ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی حفاظت یقینی بناتے ہوئے اپنا علاج کرواتے ہیں اور اس علاج میں بھی آپکی قوتِ مدافعت,
اللّٰہ پاک پہ یقین اور ٹھیک ہونے کی قوی امید ہی آپکو فوراً سے بھی پہلے صحت کی جانب لا سکتا ہے.
تو ڈرئیے نہیں، گھبرائیے نہیں، آئیے تشخیص کروائیے اپنے اور اپنے پیاروں کو اس وائرس سے محفوظ بنائیے تاکہ ہم خود کو اپنے پیاروں کو، اپنے پیارے وطن پاکستان کو اور دنیا کو اس مرض سے بچاسکیں.
اپنی زندگی میں میں نے ہمیشہ ایک سوچ کو خود پہ ایک خبط کی طرح طاری رکھا کہ
" ہم کیسے مسلمان ہیں ہمیں اپنے اللّٰہ پہ کیسا یقین ہے کہ اللّٰہ پاک سے صرف برے کی ہی امید کرتے ہیں، کہ کوئی اپنا بیمار ہو تو ہم ہمیشہ ذہن میں یہ ہی لیکر کیوں پھرتے ہیں کہ خدانخواستہ ان کو کچھ ہو نہ جائے یا پھر یہ ہمیں چھوڑ نہ جائیں، کوئی پریشانی آئے تو ہم ہمیشہ منفی سوچ ہی کیوں رکھتے ہیں یہ کیوں سوچتے ہیں کہ سب کچھ بُرا ہی ہوگا سب ختم ہی ہوگا.
کیا ہم اللّٰہ پاک سے صرف بُرے کی ہی امید کرسکتے ہیں؟ ہم سب ختم ہونے کی امید کرسکتے ہیں؟ ہم اللّٰہ سے صحت اور اچھا ہونے کی امید کیوں نہیں کرسکتے؟
وہ تو کہتا ہے نا کہ،،
"اے ابن آ دم تو مانگ کر تو دیکھ، میں تم پر عنایات کی بارش نہ کر دوں تو کہنا"
تو پھر ربّ سے اچھی امید کے ساتھ مانگو۔
کوئی بھی بیماری کوئی بھی پریشانی اللّٰہ پاک کی طرف سے آتی ہے تو یقین کیجیے اللّٰہ پاک اس بیماری اس پریشانی کو اٹھانے کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ منفی سوچوں کو خود پہ ہاوی کرنے کی بجائے مثبت سوچیے اللّٰہ سے مثبت امیدیں رکھیے پھر ان شاءاللّٰہ زندگی کو پرسکون بنتا دیکھیے.
اللّٰہ پاک آ پ سب کا حامی و ناصر ہو
#
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.