ہمارے ساتھ ایک نیا لڑکا بھرتی ہو کر آیا تھا اسے نہ جانے کیوں اتنا شوق تھا فوج میں آنے کا جنونی سا تھا پاگل
اور خوبصورت اتنا تھا کے لکھوں تو بھی لکھ نہ سکوں اس کی شوخ سی آنکھوں میں ایک عجیب سی دیوانگی ٹپکتی تھی اس کے سرخ گلابی ہونٹ کیوٹ سی ناک مسکرانے پہ ڈمپل اس کی خوبصورتی کی خوشبو تھے رنگ زیادہ گورا نہیں تھا لیکن کشش اس قدر تھی کے جیسے کوئی جنت سے آیا فرشتہ ہے
پہلے دن اس کے ساتھ جان پہچان ہوئی گپ شپ لگائی چونکہ میں میجر تھا اور وہ کیپٹن ۔کیپٹن دانش نام تھا اس کا
تو میں نے کہا کیپٹن کل سے آپ چارج سنبھال لیں گے آپ ابھی آرام کر لیں سفر سے تھک گئے ہوں گے
روب دار آواز میں مجھے سلیوٹ کیا او۔کے سر سلام کیا اور چلا گیا
اس کی آواز میں بھی بھی ایک عجیب سا کچھ تھا
دوسرے دن پریڈ گراونڈ میں سب سے تعارف کروایا گیا اس کا اخلاق ایسا تھا کے جیسے کسی بے جان کو بھی سانسیں بخش سکتا تھا کسی دشمن کو بھی سینے سے لگا سکتا تھا
چارج سنبھالتے ہی اسے کیمپ کی کچھ ذمہ داریاں دی گئیں
وہ اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے نبھاتا دن گزرتے گئے میں اس کے بہت قریب آتا گیا مجھے اس کی عادت ہونے لگی وہ اتنا اچھا تھا کے اس کی یونٹ کے سپاہی بھی اسے پسند کرتے دل سے اس کی عزت کرنے لگے
لیکن وہ کبھی کبھی بچوں جیسی شرارتیں بھی کیا کرتا تھا جو مجھے بہت بھاتی تھیں خیر وقت کے ساتھ ساتھ جان پہچان بڑھُی اور ہم بہت اچھے دوست بن ُگئے
ایک دن باتوں باتوں میں پوچھا اس سے بتاو بھائی فیملی میں کون کون ہے ُکہنے لگا سر فیملی میں ُتو ماں ہے اور 3 بہنیں ہیں بابا جان ایک سال پہلے انتقال ہو گیا
میں نے کہا تم کو کیسے یہ فوج میں آنے کا شوق پیدا ہو گیا
تو کہنے لگا میری بہنوں کو شوق تھا کے ان کا بھائی فوجی بنے ورنہ میں اچھا بھلا ڈاکٹر بن رہا تھا
وقت گزرتا گیا ہماری دوستی اس قدر بڑھ گئی کے ہم کبھی کبھی ایک دوسرے کے گھر بھی چھٹی پہ جانے لگے
وہ اکثر نور جہاں کا گانا سنا کرتا تھا
اے پتر ہٹاںتے نئیں وکدے۔ کی لبھنی ایں وچ بازار کڑے
میں اسے کہتا تھا اتنا شوخ چنچل سا لڑکا اور یہ گانا سنتا ہے کہتا تھا کبھی یہ گانا وقت آنے پہ تم کو سمجھ آئے کبھی کبھی بہت عجیب عجیب باتیں کیا کرتا تھا جو میری سمجھ میں بلکل بھی نہیں آتی تھی
میری شادی تھی اس کو انوائٹ کیا اس کی ماں بہنیں سب میری شادی پہ آئے بہت اپنائیت تھی بہت انجوائےکیا ہم۔نے
میں نے اس کی ماں جی سے کہا آنٹی جان اب کیپٹن صاحب کے لیئے بھی کوئی لڑکی دیکھو اور اس کی بھی شادی کروا دو تو شادی کی بات پہ شرما سا جاتا تھا
3 سال ہو گئے تھے ہم ساتھ تھے اس کی بہن کی شادی ہو گئ نیا گھر لے لیا اس نے چھوٹی ایک بہن کو میڈیکل میں داخلہ کروایا ایک مکمل ذمہ دار سلجھاہوا انسان تھا
پھر وہ وقت بھی آگیا جس کا اس سے زیادہ مجھے انتظار تھا جناب کی شادی کا میں اسے بہت تنگ کرتا تھا مذاق کرتا اس کے جناب کیپٹن صاحب اب آپ کے اوپر ایک اور آفیسر آنے والی ہے شرمیلا سا تھا گھر گیا منگنی اور شادی کے دن طے ہوئے اس کے واپس آیا پوری یونٹ کو مٹھائی بانٹی سب کے ساتھ اتنا گھل مل چکا تھا کے جیسے وہ ہمارے جسم کا کوئی حصہ ہو
خیر جناب کی شادی کا وقت قریب آ پہنچا چھٹی کی درخواست دی چھٹی منظور ہوئی تو ان دنوں بارڈر پہ حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے تو میں بارڈر پہ تھا وہ مجھے ملنے آیا سلیکٹ کیا اور کہنے لگا سر آج رات 9 بجے میں روانہ ہو رہا ہوں آپ بھی پرسوں پہنچ جانا شادی پہ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور زور کے جھپی لگائی اور کہا جوان فکر نہ کرو میں پہنچ جاوں گا
باتیں ہو رہی تھی ہم میں اچانک سے مجھے وائرلیس پہ آواز آئی
سر کچھ دشمن فوجیوں نے اچانک سے حملہ کر دیا ہے اوور
میں نے بھی پوزیشن سنبھالتے ہوئے دانش سے کہا دانش تم جاو جلدی سے وہ رک گیا سر چلا جاتا ہوں ابھی ایک گھنٹہ ہے میری ڈیوٹی آف ہونے میں ذرا کچھ نیکی میں بھی کما لوں میں نے اسے کہا دانش تم جاو ہم دیکھ لیں گے لیکن کہاں سننے والا تھا
اس نے بندوق اٹھائی اور پوزیشن لے لی
اتنے میں ایک دوسرا میسج آیا کے تمام چھٹی جانے والوں کی چھٹی روک دی گئی ہے بارڈر پر حالات بہت سخت ہو گئے ہیں اوور
اتنے میں دھڑ دھڑ دھڑ گولیوں کی آوازیں گونجنے لگیں دشمنوں نے حملہ کر دیا تھا میں دانش اور ساتھ 4 سپاہی ہم پوزیشن لیئے دو گھنٹے تک لڑتے رہے گولیاں رکنےکا نام نہیں تھی لے رہی ہم کو اس مورچے سے دوسرے مورچے تک جانا تھا کیسے بھی کیوں کے ہمارا اسلحہ دوسرے مورچے میں تھا ہم 3 گھنٹے گزر گئی لڑتے ہوئے میں نے وائرلیس پہ بولنا شروع کیا ہمارے پاس گولیاں ختم ہو رہی ہیں ہم کو بیک اپ دیا جائے اوور
دانش کہنے لگا تم لوگ ایسا کرو ایک ایک کر کے وہاں جاو اس مورچے پہ میں یہاں ان کا دھیان لگاتا ہوں میں کہا نہیں دانش تم پاگل ہو گئے ہو میں یہاں دیکھتا ہوں تم سب جاو لیں نہیں وہ کہاں ماننے والا تھا خیر میں 4 سپاہیوں سے بولا میں اور دانش یہاں سنبھالتے ہیں تم لوگ وہاں مورچے پہ جاو ہم پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے جیسے سپاہی مورچے کی طرف جانے لگے گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کو چھلنی کر دیا جیسے دشمن کہیں بہت قریب آ پہنچا تھا دانش ہمارے پاس اب گولیاں بھی کم ہیں اور وقت بھی میں چلا کر بولا اگر وہ لوگ ریڈ لائن کراس کر گئے تو پاس والے گاوں میں بڑی تباہی مچ جائے گی ہم کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا میں لگاتار وائرلیس پہ بولتا رہا ہمیں بیک اب دیا جائے اوور لیکن ہماری ٹیم کو پہنچنے میں 15 منٹ لگنے تھے اور وقت ہمارے پاس صرف 7۔۔8 منٹ تھا دانش نے اچانک سے مجھے سینے سے لگایا اور کہنے لگا سر وقت آ گیا ہے کے اب اس وطن پہ قربان ہونے کا میں نے کہا دانش پاگل ہو ہم ان کو روک سکتے ہیں انتظار کرو لیکن دانش بولا نہیں سر اگر نہ روک سکے تو گاوں میں آنے والی تباہی ہم کو کبھی معاف نہیں کرے گی اس نے گرنیٹ اپنے جسم سے باندھا اور بولا میں شہید ہو جاوں تو مجھے دشمن کے حوالے نہ چھوڑنا میری میت کو ان سے واپس لے کے اچھا سے دفن کرنا
میں اس کی باتوں پہ رو رہا تھا میں کیا کرتا میرا دل چاہ رہا تھا میں ایسا کرتا لیکن فوج کے کچھ قانون تھے اور وہ بھی ضد پہ تھا وقت بھی کم تھا مجھے وصیت کر رہا تھا میری ماں کو سنبھالنا میری بہن کاکہنا ڈاکٹر بن جاو تو میری قبر پہ ضرور آنا میری ماں کو کہنا شادی کے ارمان جو تھے مجھے اس کے لیئے معاف کر دے جنت میں حوروں کے ساتھ ماں کا انتظار کروں گا انشاءاللہ
اپنا موبائل مجھے دے کر کہنے لگا میری ماں میرا انتظار کر رہی ہے میں نے کہا تھا 10 بجے پہنچ جاوں گا وہ 10 بجے نہ پہنچنے پہ کال کرے گی بات کر لینا یہ کہہ کر وہ الوداع ہوا مجھے زور سے سینے سے لگایا اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا بلند کی اور دشمن کی طرف چل دیا ہم فوجیوں کی زندگیاں چند لمحوں کی مہمان ہوتی ہیں ہم کہاں کب دنیا چھوڑ جائیں ایک لمحے کی خبر نہیں وہ میری آنکھوں کے سامنے جا رہا تھا اور میں چیخ چیخ کر رو رہا تھا پرسوں اس کی شادی تھی بہنیں ماں دلہن سب انتظار میں تھے کے کیپٹن دانش گھر آرہا ہے اور یہاں خدا کچھ اور پلان کر چکا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے پاس پہنچ کر زور دار دھماکہ ہوا اور دشمن کو جہنم واصل کر دیا اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ادھر وہ شہید ہوا ادھر اس کی ماں کا فون آیا یہاں رنگ ٹون لگی ہوئی تھی
اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے۔کی لبھنی ایں وچ بازار کڑے
اے دین اے میرے داتا دی ۔نا ایویں ٹکراں مار کڑے
میرا ضبط ٹوٹا میں چیخ چیخ کر رونے لگا ایک حسین فرشتہ ملک پہ قربان ہو گیا میں نے سلیوٹ کیا اتنے میں ٹیم پہنچ چکی تھی دشمن بھی کچھ بھاگ ملے تھے مشن کامیاب رہا
ہم فوجی پرائےہوتے ہیں ہم سے نفرت نہ کیا کرو کیا پتہ کس گلی میں ہماری زندگی کی شام ہو جائے
اور خوبصورت اتنا تھا کے لکھوں تو بھی لکھ نہ سکوں اس کی شوخ سی آنکھوں میں ایک عجیب سی دیوانگی ٹپکتی تھی اس کے سرخ گلابی ہونٹ کیوٹ سی ناک مسکرانے پہ ڈمپل اس کی خوبصورتی کی خوشبو تھے رنگ زیادہ گورا نہیں تھا لیکن کشش اس قدر تھی کے جیسے کوئی جنت سے آیا فرشتہ ہے
پہلے دن اس کے ساتھ جان پہچان ہوئی گپ شپ لگائی چونکہ میں میجر تھا اور وہ کیپٹن ۔کیپٹن دانش نام تھا اس کا
تو میں نے کہا کیپٹن کل سے آپ چارج سنبھال لیں گے آپ ابھی آرام کر لیں سفر سے تھک گئے ہوں گے
روب دار آواز میں مجھے سلیوٹ کیا او۔کے سر سلام کیا اور چلا گیا
اس کی آواز میں بھی بھی ایک عجیب سا کچھ تھا
دوسرے دن پریڈ گراونڈ میں سب سے تعارف کروایا گیا اس کا اخلاق ایسا تھا کے جیسے کسی بے جان کو بھی سانسیں بخش سکتا تھا کسی دشمن کو بھی سینے سے لگا سکتا تھا
چارج سنبھالتے ہی اسے کیمپ کی کچھ ذمہ داریاں دی گئیں
وہ اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے نبھاتا دن گزرتے گئے میں اس کے بہت قریب آتا گیا مجھے اس کی عادت ہونے لگی وہ اتنا اچھا تھا کے اس کی یونٹ کے سپاہی بھی اسے پسند کرتے دل سے اس کی عزت کرنے لگے
لیکن وہ کبھی کبھی بچوں جیسی شرارتیں بھی کیا کرتا تھا جو مجھے بہت بھاتی تھیں خیر وقت کے ساتھ ساتھ جان پہچان بڑھُی اور ہم بہت اچھے دوست بن ُگئے
ایک دن باتوں باتوں میں پوچھا اس سے بتاو بھائی فیملی میں کون کون ہے ُکہنے لگا سر فیملی میں ُتو ماں ہے اور 3 بہنیں ہیں بابا جان ایک سال پہلے انتقال ہو گیا
میں نے کہا تم کو کیسے یہ فوج میں آنے کا شوق پیدا ہو گیا
تو کہنے لگا میری بہنوں کو شوق تھا کے ان کا بھائی فوجی بنے ورنہ میں اچھا بھلا ڈاکٹر بن رہا تھا
وقت گزرتا گیا ہماری دوستی اس قدر بڑھ گئی کے ہم کبھی کبھی ایک دوسرے کے گھر بھی چھٹی پہ جانے لگے
وہ اکثر نور جہاں کا گانا سنا کرتا تھا
اے پتر ہٹاںتے نئیں وکدے۔ کی لبھنی ایں وچ بازار کڑے
میں اسے کہتا تھا اتنا شوخ چنچل سا لڑکا اور یہ گانا سنتا ہے کہتا تھا کبھی یہ گانا وقت آنے پہ تم کو سمجھ آئے کبھی کبھی بہت عجیب عجیب باتیں کیا کرتا تھا جو میری سمجھ میں بلکل بھی نہیں آتی تھی
میری شادی تھی اس کو انوائٹ کیا اس کی ماں بہنیں سب میری شادی پہ آئے بہت اپنائیت تھی بہت انجوائےکیا ہم۔نے
میں نے اس کی ماں جی سے کہا آنٹی جان اب کیپٹن صاحب کے لیئے بھی کوئی لڑکی دیکھو اور اس کی بھی شادی کروا دو تو شادی کی بات پہ شرما سا جاتا تھا
3 سال ہو گئے تھے ہم ساتھ تھے اس کی بہن کی شادی ہو گئ نیا گھر لے لیا اس نے چھوٹی ایک بہن کو میڈیکل میں داخلہ کروایا ایک مکمل ذمہ دار سلجھاہوا انسان تھا
پھر وہ وقت بھی آگیا جس کا اس سے زیادہ مجھے انتظار تھا جناب کی شادی کا میں اسے بہت تنگ کرتا تھا مذاق کرتا اس کے جناب کیپٹن صاحب اب آپ کے اوپر ایک اور آفیسر آنے والی ہے شرمیلا سا تھا گھر گیا منگنی اور شادی کے دن طے ہوئے اس کے واپس آیا پوری یونٹ کو مٹھائی بانٹی سب کے ساتھ اتنا گھل مل چکا تھا کے جیسے وہ ہمارے جسم کا کوئی حصہ ہو
خیر جناب کی شادی کا وقت قریب آ پہنچا چھٹی کی درخواست دی چھٹی منظور ہوئی تو ان دنوں بارڈر پہ حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے تو میں بارڈر پہ تھا وہ مجھے ملنے آیا سلیکٹ کیا اور کہنے لگا سر آج رات 9 بجے میں روانہ ہو رہا ہوں آپ بھی پرسوں پہنچ جانا شادی پہ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور زور کے جھپی لگائی اور کہا جوان فکر نہ کرو میں پہنچ جاوں گا
باتیں ہو رہی تھی ہم میں اچانک سے مجھے وائرلیس پہ آواز آئی
سر کچھ دشمن فوجیوں نے اچانک سے حملہ کر دیا ہے اوور
میں نے بھی پوزیشن سنبھالتے ہوئے دانش سے کہا دانش تم جاو جلدی سے وہ رک گیا سر چلا جاتا ہوں ابھی ایک گھنٹہ ہے میری ڈیوٹی آف ہونے میں ذرا کچھ نیکی میں بھی کما لوں میں نے اسے کہا دانش تم جاو ہم دیکھ لیں گے لیکن کہاں سننے والا تھا
اس نے بندوق اٹھائی اور پوزیشن لے لی
اتنے میں ایک دوسرا میسج آیا کے تمام چھٹی جانے والوں کی چھٹی روک دی گئی ہے بارڈر پر حالات بہت سخت ہو گئے ہیں اوور
اتنے میں دھڑ دھڑ دھڑ گولیوں کی آوازیں گونجنے لگیں دشمنوں نے حملہ کر دیا تھا میں دانش اور ساتھ 4 سپاہی ہم پوزیشن لیئے دو گھنٹے تک لڑتے رہے گولیاں رکنےکا نام نہیں تھی لے رہی ہم کو اس مورچے سے دوسرے مورچے تک جانا تھا کیسے بھی کیوں کے ہمارا اسلحہ دوسرے مورچے میں تھا ہم 3 گھنٹے گزر گئی لڑتے ہوئے میں نے وائرلیس پہ بولنا شروع کیا ہمارے پاس گولیاں ختم ہو رہی ہیں ہم کو بیک اپ دیا جائے اوور
دانش کہنے لگا تم لوگ ایسا کرو ایک ایک کر کے وہاں جاو اس مورچے پہ میں یہاں ان کا دھیان لگاتا ہوں میں کہا نہیں دانش تم پاگل ہو گئے ہو میں یہاں دیکھتا ہوں تم سب جاو لیں نہیں وہ کہاں ماننے والا تھا خیر میں 4 سپاہیوں سے بولا میں اور دانش یہاں سنبھالتے ہیں تم لوگ وہاں مورچے پہ جاو ہم پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے جیسے سپاہی مورچے کی طرف جانے لگے گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کو چھلنی کر دیا جیسے دشمن کہیں بہت قریب آ پہنچا تھا دانش ہمارے پاس اب گولیاں بھی کم ہیں اور وقت بھی میں چلا کر بولا اگر وہ لوگ ریڈ لائن کراس کر گئے تو پاس والے گاوں میں بڑی تباہی مچ جائے گی ہم کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا میں لگاتار وائرلیس پہ بولتا رہا ہمیں بیک اب دیا جائے اوور لیکن ہماری ٹیم کو پہنچنے میں 15 منٹ لگنے تھے اور وقت ہمارے پاس صرف 7۔۔8 منٹ تھا دانش نے اچانک سے مجھے سینے سے لگایا اور کہنے لگا سر وقت آ گیا ہے کے اب اس وطن پہ قربان ہونے کا میں نے کہا دانش پاگل ہو ہم ان کو روک سکتے ہیں انتظار کرو لیکن دانش بولا نہیں سر اگر نہ روک سکے تو گاوں میں آنے والی تباہی ہم کو کبھی معاف نہیں کرے گی اس نے گرنیٹ اپنے جسم سے باندھا اور بولا میں شہید ہو جاوں تو مجھے دشمن کے حوالے نہ چھوڑنا میری میت کو ان سے واپس لے کے اچھا سے دفن کرنا
میں اس کی باتوں پہ رو رہا تھا میں کیا کرتا میرا دل چاہ رہا تھا میں ایسا کرتا لیکن فوج کے کچھ قانون تھے اور وہ بھی ضد پہ تھا وقت بھی کم تھا مجھے وصیت کر رہا تھا میری ماں کو سنبھالنا میری بہن کاکہنا ڈاکٹر بن جاو تو میری قبر پہ ضرور آنا میری ماں کو کہنا شادی کے ارمان جو تھے مجھے اس کے لیئے معاف کر دے جنت میں حوروں کے ساتھ ماں کا انتظار کروں گا انشاءاللہ
اپنا موبائل مجھے دے کر کہنے لگا میری ماں میرا انتظار کر رہی ہے میں نے کہا تھا 10 بجے پہنچ جاوں گا وہ 10 بجے نہ پہنچنے پہ کال کرے گی بات کر لینا یہ کہہ کر وہ الوداع ہوا مجھے زور سے سینے سے لگایا اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا بلند کی اور دشمن کی طرف چل دیا ہم فوجیوں کی زندگیاں چند لمحوں کی مہمان ہوتی ہیں ہم کہاں کب دنیا چھوڑ جائیں ایک لمحے کی خبر نہیں وہ میری آنکھوں کے سامنے جا رہا تھا اور میں چیخ چیخ کر رو رہا تھا پرسوں اس کی شادی تھی بہنیں ماں دلہن سب انتظار میں تھے کے کیپٹن دانش گھر آرہا ہے اور یہاں خدا کچھ اور پلان کر چکا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے پاس پہنچ کر زور دار دھماکہ ہوا اور دشمن کو جہنم واصل کر دیا اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ادھر وہ شہید ہوا ادھر اس کی ماں کا فون آیا یہاں رنگ ٹون لگی ہوئی تھی
اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے۔کی لبھنی ایں وچ بازار کڑے
اے دین اے میرے داتا دی ۔نا ایویں ٹکراں مار کڑے
میرا ضبط ٹوٹا میں چیخ چیخ کر رونے لگا ایک حسین فرشتہ ملک پہ قربان ہو گیا میں نے سلیوٹ کیا اتنے میں ٹیم پہنچ چکی تھی دشمن بھی کچھ بھاگ ملے تھے مشن کامیاب رہا
ہم فوجی پرائےہوتے ہیں ہم سے نفرت نہ کیا کرو کیا پتہ کس گلی میں ہماری زندگی کی شام ہو جائے
- کیپٹن دانش جیسے نوجوان اپنی زندگی کی پرواہ کیئے بنا موت کو چوم لیتے ہیں خدا نصیب والوں کو یہ درجہ دیتا ہے
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.