د
1۔ بخاری شریف کی حدیث کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا گیا کہ کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ فرمانے لگیں کہ تمہاری اس بات سے میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے، جو شخص تم سے کہے کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے۔ علماۓ اہلسنت نے اس حدیث کی بہت تاویلیں کی ہیں (یہ بھی یاد رہے کہ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی ذاتی رائے ہے، انہوں نے حضورﷺ کی کوئی حدیث بیان نہیں کی)۔
2۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کو اللہ کریم کا دیدار نہیں ہوالیکن جمہور صحابہ کرام، تابعین، علماء کرام اس کے قائل ہیں کہ حضورﷺ کو اللہ کریم کا دیدار ہوا۔ جناب احمد رضا خاں صاحب نے فتاوی رضویہ میں دیدار الہی کے دلائل اسطرح دئے گئے ہیں:
مرفوع حدیثیں
1۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔(مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵)
** امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی اورعلامہ عبدالرؤف مناوی تیسیرشرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں:
یہ حدیث بسند صحیح ہے(التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵)(الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱)
2۔ ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور سیدالمرسلینﷺ فرماتے ہیں: بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی (کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷ )
3۔ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمدﷺ!مواجہ بخشا کہ بے پردہ وحجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا۔(تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶)
** مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اورقاصد نہ ہو۔ (مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴)
4۔ ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: میں نے سنا رسول اللہ ﷺ سدرالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یارسول اللہ! حضو ر نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟فرمایا: مجھے اس کے پاس دیدار ہوایعنی رب کا۔(درالمنثور فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴)
اٰثار الصحابہ
1۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی:ہم بنی ہاشم اہلبیت رسول اللہ ﷺ تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب کو دوبار دیکھا۔(جامع الترمذی ابو اب التفسیر سورئہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱) ) الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱/ ۱۵۹)
2۔ ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دریافت کیا : کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کودیکھا ؟ا نہوں نے جواب دیا: ہاں۔(درالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱۸داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰)
3۔ طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : محمد صلیﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔ عکرمہ ان کے شاگردکہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد ﷺنے اپنے رب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کے لئے کلام رکھا اورابراہیم کے لئے دوستی اورمحمد ﷺ کے لئے دیدار۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ ) بیشک محمد ﷺ نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا۔(معجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱) (جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردوبازار دہلی ۲/ ۱۶۰)
*** امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ امام نسائی اورامام خزینہ وحاکم وبیہقی کی روایت میں ہے:
کیاابراہیم کے لئے دوستی اورموسٰی کے لئے کلام اورمحمدﷺ کے لئے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔ حاکمنےکہا: یہ حدیث صحیح ہے۔ امام قسطلانی وزرقانی نے فرمایا: اس کی سند جید ہے
(مواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
(الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹)
(المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد ﷺ ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵)
(السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷)
4۔ طبرانی معجم اوسط میں راوی: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرمایا کرتے بیشک محمدﷺ نے دوبار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے اورایک بار دل کی آنکھ سے۔ (مواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶)
** امام سیوطی وامام قسطلانی وعلامہ شامی علامہ زرقانی فرماتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامسالمکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷)
5۔ امام الائمہ ابن خزیمہ وامام بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔(المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
** امام احمد قسطلانی وعبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے(مواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸)
6۔ محمد بن اسحٰق کی حدیث میں ہے : مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمدﷺ نے اپنے ر ب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
اخبار التابعین
1۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے :امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاکر فرمایا کرتے بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔(شفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
2۔ اسی طرح امام ابن خزیمہ حضرت عروہ بن زیبر سے کہ حضور اقدس ﷺکے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اورصدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے ہیں راوی کہ وہ نبی ﷺ کو شب معراج دیدار الہٰی ہونا مانتے اوران پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۱۶)
3۔ یوں ہی کعب احبار عالم کتب سابقہ وامام ابن شہاب زہری قرشی وامام مجاہد مخزومی مکی وامام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی وامام عطا بن رباح قرشی مکی ۔ استاد امام ابو حنیفہ وامام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی یہی مذہب ہے۔
4۔ امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں :ابن خزیمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہاسے اس کا اثبات روایت کیاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے ۔ کعب احبار اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ الخ۔(ت)(المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
اقوال من بعدھم من ائمّۃ الدین
1۔ امام خلّال کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے:نبی ﷺ کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا (مواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷)
2۔ نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام رحمہ اللہ تعالٰی سےراوی: انہوں نے فرمایا میں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا معتقد ہوں نبیﷺ نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھادیکھا ، یہاں تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی۔(لشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹)
3۔ امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں: امام معمر بن راشد بصری اوران کے سوا اورعلماء نے اس پر جزم کیا ، اوریہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اوران کے غالب پَیروؤں کا۔ (مواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
4۔ علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں:مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبیﷺ نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہ کرام کا یہی مذہب ہے۔
(نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳)
5۔ امام نووی شرح صحیح مسلم میں پھر علامہ محمدبن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں: جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی ﷺ نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶)
6۔ ائمہ متاخرین کے جدا جدااقوال کی حاجت نہیں کہ وہ حد شمار سے خارج ہیں اورلفظ اکثر العلماء کہ منہاج میں فرمایا کافی ومعنی ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
اہم نُکتہ: جمہور صحابہ کرام، تابعین، علماء کرام حضورﷺ کے لئے ”دیدار الہی“ مانتے ہیں یہی اہلسنت کا قانون ہے، اسلئےاہلسنت کےقانون کو توڑنے والوں کو گمراہ کہتے ہیں۔ غیر مقلد، اہلحدیث، مرزا انجینئیر یا جویہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کو اللہ کریم کا دیدار نہیں ہوالیکن یہ بتا دیں کہ دیدار الہی ماننے والوں کے خلاف کیا فتوی دیں گے؟ اگر کوئی فتوی نہیں دے سکتے تو مسلمانوں میں مذہبی انتشار پیدا کر نے کے جُرم میں کل قیامت والے دن جواب ضرور دیناپڑے گا۔
اتحاد امت: دیوبندیت اور بریلویت ختم ہو کر ایک اہلسنت بن جائیں گے، بدعت و شرک کا خاتمہ ہو جائے گا، اگر دیوبندی علماء اپنے بڑوں کی چار کفریہ عبارتوں سے توبہ کر لیں اور عوام کو یہ بتا دیں کہ دیوبندی اور بریلوی ملک حجاز، چار مصلے(حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) خانہ کعبہ، اہلسنت علماء کرام کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔
امام: اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ان کے امام حضورﷺ ہیں اور ہم حضورﷺ کے ساتھ ہوں گے، اس بات میں جھوٹ یہ ہے کہ اہلحدیث جماعت سے پہلے چارائمہ کرام کے ماننے والوں نے متفقہ طور پر تقلید کا قانون منظور کیا اور اہلحدیث جماعت کا ”امام“ وہی ہو گا جس نے تقلید کے قانون کو بدعت و شرک کہہ کر چاروں ائمہ کرام کے ماننے والے علماء کرام کو بدعتی ومُشرک کہا۔ اگر حضورﷺ نے تقلید کا حکم نہیں دیا تو حضورﷺ نے غیر مقلد رہنے کا بھی حُکم نہیں دیا۔ علیکم بسنتی کا حکم ہے علیکم بحدیثی کا نہیں۔دیا ہے ۔
1۔ بخاری شریف کی حدیث کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا گیا کہ کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ فرمانے لگیں کہ تمہاری اس بات سے میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے، جو شخص تم سے کہے کہ محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے۔ علماۓ اہلسنت نے اس حدیث کی بہت تاویلیں کی ہیں (یہ بھی یاد رہے کہ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی ذاتی رائے ہے، انہوں نے حضورﷺ کی کوئی حدیث بیان نہیں کی)۔
2۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کو اللہ کریم کا دیدار نہیں ہوالیکن جمہور صحابہ کرام، تابعین، علماء کرام اس کے قائل ہیں کہ حضورﷺ کو اللہ کریم کا دیدار ہوا۔ جناب احمد رضا خاں صاحب نے فتاوی رضویہ میں دیدار الہی کے دلائل اسطرح دئے گئے ہیں:
مرفوع حدیثیں
1۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔(مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵)
** امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی اورعلامہ عبدالرؤف مناوی تیسیرشرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں:
یہ حدیث بسند صحیح ہے(التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵)(الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱)
2۔ ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور سیدالمرسلینﷺ فرماتے ہیں: بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی (کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷ )
3۔ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمدﷺ!مواجہ بخشا کہ بے پردہ وحجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا۔(تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶)
** مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اورقاصد نہ ہو۔ (مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴)
4۔ ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: میں نے سنا رسول اللہ ﷺ سدرالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یارسول اللہ! حضو ر نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟فرمایا: مجھے اس کے پاس دیدار ہوایعنی رب کا۔(درالمنثور فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴)
اٰثار الصحابہ
1۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی:ہم بنی ہاشم اہلبیت رسول اللہ ﷺ تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب کو دوبار دیکھا۔(جامع الترمذی ابو اب التفسیر سورئہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱) ) الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱/ ۱۵۹)
2۔ ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دریافت کیا : کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کودیکھا ؟ا نہوں نے جواب دیا: ہاں۔(درالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱۸داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰)
3۔ طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : محمد صلیﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔ عکرمہ ان کے شاگردکہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد ﷺنے اپنے رب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کے لئے کلام رکھا اورابراہیم کے لئے دوستی اورمحمد ﷺ کے لئے دیدار۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ ) بیشک محمد ﷺ نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا۔(معجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱) (جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردوبازار دہلی ۲/ ۱۶۰)
*** امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ امام نسائی اورامام خزینہ وحاکم وبیہقی کی روایت میں ہے:
کیاابراہیم کے لئے دوستی اورموسٰی کے لئے کلام اورمحمدﷺ کے لئے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔ حاکمنےکہا: یہ حدیث صحیح ہے۔ امام قسطلانی وزرقانی نے فرمایا: اس کی سند جید ہے
(مواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
(الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹)
(المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد ﷺ ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵)
(السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷)
4۔ طبرانی معجم اوسط میں راوی: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرمایا کرتے بیشک محمدﷺ نے دوبار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے اورایک بار دل کی آنکھ سے۔ (مواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶)
** امام سیوطی وامام قسطلانی وعلامہ شامی علامہ زرقانی فرماتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے (المواہب اللدنیۃ المقصد الخامسالمکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷)
5۔ امام الائمہ ابن خزیمہ وامام بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔(المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
** امام احمد قسطلانی وعبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے(مواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸)
6۔ محمد بن اسحٰق کی حدیث میں ہے : مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمدﷺ نے اپنے ر ب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶) (الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
اخبار التابعین
1۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے :امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاکر فرمایا کرتے بیشک محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔(شفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
2۔ اسی طرح امام ابن خزیمہ حضرت عروہ بن زیبر سے کہ حضور اقدس ﷺکے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اورصدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے ہیں راوی کہ وہ نبی ﷺ کو شب معراج دیدار الہٰی ہونا مانتے اوران پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۱۶)
3۔ یوں ہی کعب احبار عالم کتب سابقہ وامام ابن شہاب زہری قرشی وامام مجاہد مخزومی مکی وامام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی وامام عطا بن رباح قرشی مکی ۔ استاد امام ابو حنیفہ وامام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی یہی مذہب ہے۔
4۔ امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں :ابن خزیمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہاسے اس کا اثبات روایت کیاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے ۔ کعب احبار اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ الخ۔(ت)(المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
اقوال من بعدھم من ائمّۃ الدین
1۔ امام خلّال کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے:نبی ﷺ کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا (مواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷)
2۔ نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام رحمہ اللہ تعالٰی سےراوی: انہوں نے فرمایا میں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا معتقد ہوں نبیﷺ نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھادیکھا ، یہاں تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی۔(لشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹)
3۔ امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں: امام معمر بن راشد بصری اوران کے سوا اورعلماء نے اس پر جزم کیا ، اوریہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اوران کے غالب پَیروؤں کا۔ (مواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
4۔ علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں:مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبیﷺ نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہ کرام کا یہی مذہب ہے۔
(نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳)
5۔ امام نووی شرح صحیح مسلم میں پھر علامہ محمدبن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں: جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی ﷺ نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶)
6۔ ائمہ متاخرین کے جدا جدااقوال کی حاجت نہیں کہ وہ حد شمار سے خارج ہیں اورلفظ اکثر العلماء کہ منہاج میں فرمایا کافی ومعنی ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
اہم نُکتہ: جمہور صحابہ کرام، تابعین، علماء کرام حضورﷺ کے لئے ”دیدار الہی“ مانتے ہیں یہی اہلسنت کا قانون ہے، اسلئےاہلسنت کےقانون کو توڑنے والوں کو گمراہ کہتے ہیں۔ غیر مقلد، اہلحدیث، مرزا انجینئیر یا جویہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کو اللہ کریم کا دیدار نہیں ہوالیکن یہ بتا دیں کہ دیدار الہی ماننے والوں کے خلاف کیا فتوی دیں گے؟ اگر کوئی فتوی نہیں دے سکتے تو مسلمانوں میں مذہبی انتشار پیدا کر نے کے جُرم میں کل قیامت والے دن جواب ضرور دیناپڑے گا۔
اتحاد امت: دیوبندیت اور بریلویت ختم ہو کر ایک اہلسنت بن جائیں گے، بدعت و شرک کا خاتمہ ہو جائے گا، اگر دیوبندی علماء اپنے بڑوں کی چار کفریہ عبارتوں سے توبہ کر لیں اور عوام کو یہ بتا دیں کہ دیوبندی اور بریلوی ملک حجاز، چار مصلے(حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) خانہ کعبہ، اہلسنت علماء کرام کے متفقہ عقائد پر ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔
امام: اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ان کے امام حضورﷺ ہیں اور ہم حضورﷺ کے ساتھ ہوں گے، اس بات میں جھوٹ یہ ہے کہ اہلحدیث جماعت سے پہلے چارائمہ کرام کے ماننے والوں نے متفقہ طور پر تقلید کا قانون منظور کیا اور اہلحدیث جماعت کا ”امام“ وہی ہو گا جس نے تقلید کے قانون کو بدعت و شرک کہہ کر چاروں ائمہ کرام کے ماننے والے علماء کرام کو بدعتی ومُشرک کہا۔ اگر حضورﷺ نے تقلید کا حکم نہیں دیا تو حضورﷺ نے غیر مقلد رہنے کا بھی حُکم نہیں دیا۔ علیکم بسنتی کا حکم ہے علیکم بحدیثی کا نہیں۔دیا ہے ۔
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.