وائرس میں گھرا پاکستان اور کرونا
پاپ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ مائیکل جیکسن جس کے گانوں سے کئی شوقین مزاج لوگوں کی پلے لسٹ بھری ہوتی ہے۔ایک ایسا انسان تھا جو نظام فطرت کو شکست دینا چاہتا تھا ،اسے چار چیزوں سے سخت نفرت تھی۔
#اسے اپنے سیاہ رنگ سے نفرت تھی ۔
#اسے گمنامی سے نفرت تھی
#اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی
#اسے عام لوگوں کی طرح ستر ،اسی برس میں مر جانے سے نفرت تھی وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔وہ ایک ایسا گلوکار بننا چاہتا تھا جو ایک سو پچاس سال کی عمر میں لاکھوں لوگوں کے سامنے ڈانس کرے اور کڑروں مداحین کی موجودگی میں دنیا سے رخصت ہو جائے۔
مائیکل جیکسن کی زندگی ان چار خواہشوں کی تکمیل میں گزری۔
اس نے 1982 میں اپنا دوسرا البم "تھرلر "لانچ کیا۔یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والا البم تھا۔ایک ماہ میں اس البم کی ساڑھ چھ کروڑ کاپیاں فروخت ہوئی۔اور یہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔مائیکل جیکسن دنیا کا مشہور گلوکار بن گیا اس نے گمنامی کو شکست دے دی۔
مائیکل نے اس کے بعد اپنی سیاہ رنگت دینے کا فیصلہ کیا اور پلاسٹک سرجری شروع کروادی1987 تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل و صورت،جلد نقوش بدل گئے اور اس نے اپنی سیاہ رنگت کو شکت دے دی۔
اس نے اپنے ماضی کو ختم کرنے کے لیے اپنے پرانے دوستوں اور خاندان سے قطعے تعلق کر لیا اور خود کو مشہور کرنے کے لیے ایلوس پریسلے کی بیٹی "لیزا میری پریسلے سے شادی کر لی لہذا اس نے ماضی سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا۔
اب اس کی آخری خواہش کی باری تھی وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا۔وہ جراثیم وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کے لئے دستانے پہن کر لوگوں سے ملتا تھا وہ لوگوں میں جانے سے پہلے ماسک چڑھا لیتا تھا اس نے مستقل بارہ ڈاکڑ رکھے ہوئے تھے جو روزانہ اس کی خوراک اور جسم کا معائنہ کرتے۔اسے یقین تھا کہ وہ ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہے گا۔
لیکن پھر 25 جون کی رات آئی اسے سانس لینے کی دشواری پیش آئی ڈاکٹرز کی بھر پور کوشش کے باوجود وہ اسے نہ بچا سکے۔
وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی ۔جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا۔جس کے گھر میں دن میں چار دفعہ جراثیم کش اسپرے کیے جاتے وہ شخص پچاس سال کی عمر میں تیس منٹ کے اندر انتقال کر گیا۔
اب آتے ہیں کرونا وائرس کی طرف
کورنا وائرس کو لے کر یہ میری پہلی تحریر ہے جو اب تک گوگل سے لی گئی معلومات پر انحصار کرتی ہے۔اس وائرس سے اموات اب تک 2 فی صد بتائی جا رہی ہے لیکن اس کے متعلق خوف وہراس ایسے پھیلایا جا رہا ہے جیسے یہ قیامت ہو۔
اگر پاکستان میں کرونا وائرس کے کیس سامنے آیا ہے تو شور مچانے اور لوگوں کے اندر خوف پیدا کرنے سے الٹا لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اور اس وائرس کو اگر سارے پاکستانیوں میں انجیکٹ کیا جائے تو بھی اموات کی شرح صفر یا ایک فی صد سے اوپر نہیں جائے گی۔
اگر لوگوں میں خوف ہراس پھیلا رہے ہیں تو ہم ملک کی معیشت کو مزید کمزور کر یں گے۔یہ ایک بائیو ویپن ہے جس کے ذریعے ملکی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔بارڈر بند ہونے کی وجہ سے تمام ممالک کی معیشت تباہ ہو گئی ۔چائنا ایک ترقی یافتہ ممالک میں سے ہے جس کی معیشت کو کافی نقصان ہوا۔اب اگر یہی صورت حال پاکستان میں بنائی جائے تو ہماری معیشت مزید کمزور ہو گی۔اور ہم قوم بھی اتنی غیرت مند ہیں کہ فیس ماسک کی قیمتیں دس گناہ بڑھا دی ہے۔یہ ہے ہم لوگوں میں احساس ۔
اصل میں ہم لوگوں پر آزمائش آتی ہے اور اسے عذاب ہم خود بناتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے لوگوں کا دماغ خراب کیا ہوا ہےاور لوگوں کو دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔ہر چینل کریڈٹ لینے کے چکر میں سنسی پھیلا رہا ہے۔
ہمیں وائرس سے نہیں خود سے خطرات لاحق ہیں۔کیا تباہ ہونے کے لیے کسی وائرس کی ضرورت ہے۔خدارا اس وائرس کو خود پر مسلط نہ ہونے دیں۔اس جہاں سے مائیگریشن تک بھر پور جیئں۔کیونکہ موت نے اپنے مقرر وقت پہ لازمی آنی ہے چاہے بہانہ کسی وائرس کا ہو یا جنگ کا۔
اللّٰہ پاک پاکستان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور انسانیت کو انسانوں سے لاحق خطرات سے محفوظ رکھے آمین
میرا یہ ایمان ہے وائرس بھی ایک اللّٰہ کی مخلوق ہےاور اس کے حکم کی پابند ہےاور اسی کے حکم سے پھیل رہا ہے۔اور اسی کے حکم سے علاج بھی دریافت ہو گا
غور کرنے کی بات ہے کرونا وائرس سے متاثرہ100 افراد میں سے 2.5 لوگ فوت ہوئے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق تو جب دنیا میں اسکا علاج ہی ممکن نہیں تو باقی کے 97.5 لوگوں کو صحت کون دے رہا ہے ۔ہم الحمدللّٰہ مسلمان ہیں اور ہمیں اللّٰہ پر بھروسہ ہونا چاہیے اور اسی سے مدد مانگیں ۔پانچ وقت نماز کی پابندی کریں اور اللّٰہ پاک سے ڈریں🙏 ۔کوئی بھی وائرس آپ تک نہیں آے گا
زندگی بہت تھوڑی ہے اس کو بامقصد بنائیں۔❤️
پاپ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ مائیکل جیکسن جس کے گانوں سے کئی شوقین مزاج لوگوں کی پلے لسٹ بھری ہوتی ہے۔ایک ایسا انسان تھا جو نظام فطرت کو شکست دینا چاہتا تھا ،اسے چار چیزوں سے سخت نفرت تھی۔
#اسے اپنے سیاہ رنگ سے نفرت تھی ۔
#اسے گمنامی سے نفرت تھی
#اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی
#اسے عام لوگوں کی طرح ستر ،اسی برس میں مر جانے سے نفرت تھی وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔وہ ایک ایسا گلوکار بننا چاہتا تھا جو ایک سو پچاس سال کی عمر میں لاکھوں لوگوں کے سامنے ڈانس کرے اور کڑروں مداحین کی موجودگی میں دنیا سے رخصت ہو جائے۔
مائیکل جیکسن کی زندگی ان چار خواہشوں کی تکمیل میں گزری۔
اس نے 1982 میں اپنا دوسرا البم "تھرلر "لانچ کیا۔یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والا البم تھا۔ایک ماہ میں اس البم کی ساڑھ چھ کروڑ کاپیاں فروخت ہوئی۔اور یہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔مائیکل جیکسن دنیا کا مشہور گلوکار بن گیا اس نے گمنامی کو شکست دے دی۔
مائیکل نے اس کے بعد اپنی سیاہ رنگت دینے کا فیصلہ کیا اور پلاسٹک سرجری شروع کروادی1987 تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل و صورت،جلد نقوش بدل گئے اور اس نے اپنی سیاہ رنگت کو شکت دے دی۔
اس نے اپنے ماضی کو ختم کرنے کے لیے اپنے پرانے دوستوں اور خاندان سے قطعے تعلق کر لیا اور خود کو مشہور کرنے کے لیے ایلوس پریسلے کی بیٹی "لیزا میری پریسلے سے شادی کر لی لہذا اس نے ماضی سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا۔
اب اس کی آخری خواہش کی باری تھی وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا۔وہ جراثیم وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کے لئے دستانے پہن کر لوگوں سے ملتا تھا وہ لوگوں میں جانے سے پہلے ماسک چڑھا لیتا تھا اس نے مستقل بارہ ڈاکڑ رکھے ہوئے تھے جو روزانہ اس کی خوراک اور جسم کا معائنہ کرتے۔اسے یقین تھا کہ وہ ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہے گا۔
لیکن پھر 25 جون کی رات آئی اسے سانس لینے کی دشواری پیش آئی ڈاکٹرز کی بھر پور کوشش کے باوجود وہ اسے نہ بچا سکے۔
وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی ۔جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا۔جس کے گھر میں دن میں چار دفعہ جراثیم کش اسپرے کیے جاتے وہ شخص پچاس سال کی عمر میں تیس منٹ کے اندر انتقال کر گیا۔
اب آتے ہیں کرونا وائرس کی طرف
کورنا وائرس کو لے کر یہ میری پہلی تحریر ہے جو اب تک گوگل سے لی گئی معلومات پر انحصار کرتی ہے۔اس وائرس سے اموات اب تک 2 فی صد بتائی جا رہی ہے لیکن اس کے متعلق خوف وہراس ایسے پھیلایا جا رہا ہے جیسے یہ قیامت ہو۔
اگر پاکستان میں کرونا وائرس کے کیس سامنے آیا ہے تو شور مچانے اور لوگوں کے اندر خوف پیدا کرنے سے الٹا لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اور اس وائرس کو اگر سارے پاکستانیوں میں انجیکٹ کیا جائے تو بھی اموات کی شرح صفر یا ایک فی صد سے اوپر نہیں جائے گی۔
اگر لوگوں میں خوف ہراس پھیلا رہے ہیں تو ہم ملک کی معیشت کو مزید کمزور کر یں گے۔یہ ایک بائیو ویپن ہے جس کے ذریعے ملکی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔بارڈر بند ہونے کی وجہ سے تمام ممالک کی معیشت تباہ ہو گئی ۔چائنا ایک ترقی یافتہ ممالک میں سے ہے جس کی معیشت کو کافی نقصان ہوا۔اب اگر یہی صورت حال پاکستان میں بنائی جائے تو ہماری معیشت مزید کمزور ہو گی۔اور ہم قوم بھی اتنی غیرت مند ہیں کہ فیس ماسک کی قیمتیں دس گناہ بڑھا دی ہے۔یہ ہے ہم لوگوں میں احساس ۔
اصل میں ہم لوگوں پر آزمائش آتی ہے اور اسے عذاب ہم خود بناتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے لوگوں کا دماغ خراب کیا ہوا ہےاور لوگوں کو دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔ہر چینل کریڈٹ لینے کے چکر میں سنسی پھیلا رہا ہے۔
ہمیں وائرس سے نہیں خود سے خطرات لاحق ہیں۔کیا تباہ ہونے کے لیے کسی وائرس کی ضرورت ہے۔خدارا اس وائرس کو خود پر مسلط نہ ہونے دیں۔اس جہاں سے مائیگریشن تک بھر پور جیئں۔کیونکہ موت نے اپنے مقرر وقت پہ لازمی آنی ہے چاہے بہانہ کسی وائرس کا ہو یا جنگ کا۔
اللّٰہ پاک پاکستان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور انسانیت کو انسانوں سے لاحق خطرات سے محفوظ رکھے آمین
میرا یہ ایمان ہے وائرس بھی ایک اللّٰہ کی مخلوق ہےاور اس کے حکم کی پابند ہےاور اسی کے حکم سے پھیل رہا ہے۔اور اسی کے حکم سے علاج بھی دریافت ہو گا
غور کرنے کی بات ہے کرونا وائرس سے متاثرہ100 افراد میں سے 2.5 لوگ فوت ہوئے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق تو جب دنیا میں اسکا علاج ہی ممکن نہیں تو باقی کے 97.5 لوگوں کو صحت کون دے رہا ہے ۔ہم الحمدللّٰہ مسلمان ہیں اور ہمیں اللّٰہ پر بھروسہ ہونا چاہیے اور اسی سے مدد مانگیں ۔پانچ وقت نماز کی پابندی کریں اور اللّٰہ پاک سے ڈریں🙏 ۔کوئی بھی وائرس آپ تک نہیں آے گا
زندگی بہت تھوڑی ہے اس کو بامقصد بنائیں۔❤️
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.