اپنے ہاتھ بار بار دھوئئں، دوسروں سے فاصلے پر رہیں، اگر آپ میں علامات ظاہر ہو رہی ہیں تو خود کو قرنطینہ میں رکھیں۔ یہی وہ سارے مشورے ہیں جو عالمی ادارہِ صحت کورونا وائرس کو روکنے کے لیے دے رہا ہے۔
مگر لاکھوں لوگوں کو ان اقدامات سے کوئی زیادہ امید نہیں ہے۔
دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگ شہروں کچی بستیوں جیسے حالات میں رہتے ہیں جو کہ شہری آبادی کا تقریباً 30 فیصد ہے۔ یہاں مکانات میں ہوا کے راستے کم اور گٹروں کا نظام ناقص ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلنے کے امکانات کافی زیادہ ہوتے ہیں۔
43 سالہ سیلستین آدھیامبو نائروبی میں موکورو نامی کچی آبادی کی رہائشی ہیں جہاں وہ اپنے شوہر اور چھ بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس فیملی کے ایک کمرے کے مکان میں نہ تو ہانی آتا ہے نہ ہی بجلی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے بچے گھر کے اندر ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر چل پھر نہیں سکتے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کسی انفیکشن کی صورت میں ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم ایک بچے کو باقی بچوں سے علیحدہ کر سکیں۔ ہمارے پاس جگہ ہی نہیں ہے۔ کوئی کمرے نہیں ہیں۔ حکومت کو متاثرہ لوگوں کو ہسپتالوں میں لے جانا چاہیے۔‘
ان کے شوہر بڑھئی کا کام کرتے ہیں اور جس دن ان کو مزدوری مل جائے تو وہ 400 کینیائی شیلنگ (تقریباً 4 ڈالر) تک کما لیتے ہیں جبکہ ہر روز اس خاندان کو 50 شیلنگ ‘تقریباً نصف ڈالر’پانی خریدنے میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔
تاہم پانی کی رسد غیر مستحکم ہے اور جن دونوں پانی نہیں ملتا اس فیملی کے لوگ غسل نہیں کر سکتے۔
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.