گوہر شاہی ملعون فتنہ انجمن ُسرفروشانِ اسلام کا بانی اس کا اصل نام ریاض احمد تھا،والد کا نام فضل حسین مغل تھا جو کہ ایک سرکاری ملازم تھ
گوہر شاہی ملعون فتنہ انجمن سرفروشانِ اسلام کا بانی
اس کا اصل نام ریاض احمد تھا،والد کا نام فضل حسین مغل تھا جو کہ ایک سرکاری ملازم تھا۔ گوہر شاہی دادا کی طرف نسبت ہے جس کا نام گوہر علی شاہ تھا جو کہ سری نگر کشمیر کے رہائشی تھا،وہاں اس سے ایک قتل سرزد ہوا، پکڑے جانے کے ڈر سے راولپنڈی آ گیا اور نالہ لئی کے پاس رہائش پذیر ہوا ، جب انگریزی پولیس کا ڈر زیادہ ہوا تو فقیری کا روپ دھار کر تحصیل گوجر خان کے ایک جنگل میں ڈیرہ لگایا ، جہاں کافی لوگ اس کے مرید ہو گئے اور جنگل کو نذرانے میں پیش کر دیا ، یہی جنگل ڈھوک گوہر علی شاہ کے نام سے آباد ہوا اور یہیں ریاض احمد گوہر شاہی ۲۵ نومبر ۱۹۴۱ میں پیدا ہوا۔
تعلیم : اپنے گاوں میں ہی مڈل پاس کیا اور پھر پرائیویٹ طور پر میڑک کیا، اس کے بعد ویلڈنگ اور موٹر میکینک کا کام سیکھ کر اس کی دوکان کھولی ؛ مگر اس میں کوئی نفع حاصل نہ ہوا ۔ حصولِ روزگار کے لیے پریشانی ہوئی تو اس نے سوچا کہ دادا والا کام دھندہ یعنی پیری مریدی شروع کر دی جائے۔۔۔اس کے لیے ابتداء خانقاہ کے چکر لگائے، خود لکھتا ہے : ”کئی سال سیہون کے پہاڑوں اور لال باغ میں چلے اور مجاہدے کیے مگر گوہرِ مراد حاصل نہ ہوا اور پھر بری امام اور داتا دربار بھی رہا ؛ مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔۔۔ مزید لکھتا ہے ::: اس کے بعد طبیعت بگڑ گئی ۔ بیس سال کی عمر سے تیس سال تک ایک گدھے کا اثر رہا(گوہر شاہی ایک خیالی گدھے پر بیٹھ کر آسمانوں کی سیر کر چکا ہے) نماز وغیرہ ختم ہو گئی ، جمعہ کی نماز بھی ادا نہ ہو سکی ۔ زندگی سینماؤں اور تھیٹروں میں گزرتی ۔۔۔ حصولِ دولت کے لیے حلال و حرام کی تمیز جاتی رہی ۔ بے ایمانی ، جھوٹ اور فراڈ شعار بن گیا۔ (روحانی سفر ص: ۱۳تا۱۶) پھر ایک مرتبہ عزم مضبوط کر کے سندھ کے پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ علاقے جام شورو ٹیکسٹ بک بورڈ میں جھونپڑی ڈال کر پیری مریدی شروع کر دی ، کچھ کمزور عقیدہ لوگوں کی آمد شروع ہو گئی ،،، لیکن قریبی یونیورسٹی کے پرنسپل نے سارا منصوبہ خاک میں ملا دیا اور جھونپڑی اُکھاڑنے کا حکم دیا ، ہم نے چپ چاپ اکھاڑ لی (روحانی سفر ۔۹،۸)
پھر حیدر آباد، سرے گھاٹ میں رہنے لگا ، اپنے آپ کو سید ظاہر کیا جب کہ تھا مغل ۔۔۔ سندھ کے لوگ چونکہ سید کے نام پہ مرتے ہیں ؛ اس لیے اس کی کافی پذیرائی کی۔۔۔ یہیں سے شہرت ملی اور ۱۹۸۰ میں اس نے کوٹری حیدر آباد ، سندھ ، خورشید کالونی سے ہی (انجمن سرفروشانِ اسلام)کی بنیاد ڈالی اور اپنے منگھڑت عقائد کا پرچار شروع کیا ۔ اس کے گمراہ کن عقائد و نظریات اور باطل دعوے مندرجہ ذیل ہیں ۔
اللہ کی توہین: حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ مجبور ہے اور شہ رگ کے پاس ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتا ہے ، مزید فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی اللہ کے ہاتھ میں دیکھی۔
انبیاء کرام کی توہین : حضرت آدم کو حسد اور شرارتِ نفس کا مریض قرار دینا ، حضرت موسیٰ کی قبر کو جسدِ اطہر سے خالی اور شرک کا اڈا باور کرانا اور حضرت خضر کو قاتلِ نفس گردانتے ہوئے ان کی توہین کرتا ہے۔ (روحانی سفر)
جعلی کلمہ : کلمہ میں محمد رسول اللہ کی جگہ اس ظالم نے گوہر شاہی رسول اللہ لکھوایا۔ (حق کی آواز)
قرآن پاک کے بارے میں لکھا ہے : تیس پارے ظاہری قرآن پاک اور دس پارے باطنی ملا کر چالیس پارے ہوئے اور یہ ہم پر عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریعے منکشف ہوئے۔ (حق کی آواز ، ص:۵۴،۵۲)
اس کے علاوہ اولیاء اللہ کی توہین ، حضرت رابعہ بصریہ جیسی پاکباز کو طوائف کہنا ، شریعت اور طریقت کو الگ کرنا ، حضور کی زیارت کے بغیر امتی نہ ہونے کا قول کرنا اور حضور سے بالمشافہ ملاقات اور علم سیکھنے کا مدعی ہونا اور اپنے لیے معراج اور الہام کا دعویدار ہونا ، اس کی زہر افشانیوں میں شامل ہے۔ اپنے ان گمراہانہ عقائد و نظریات اور دعاوی کے اثبات اور ترویج کے لیے اس نے بہت سی کتابیں لکھیں روحانی سفر، روشناس، مینارہ نور ، تحفۃ المجالس، حق کی آواز اور تریاقِ قلب وغیرہ ۔
آج کل مہدی فاؤنڈیشن اور مسیحا فاؤنڈیشن کے نام سے یہ جماعت مصروف عمل ہے اور اس نام سے ان کی کئی سائیٹس بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں ۔ اس کے ان گمراہانہ عقائد و نظریات کو دیکھتے ہوئے اور اس کی صفت دجالیت کو بر وقت بھانپتے ہوئے ملک کے نامور علماء اور دینی مدارس نے اس پر مرتد و کافر ، ملحد ، زندیق اور ضال و مضل کا فتویٰ صادر کیا ، ان میں سرِ فہرست جامعہ فاروقیہ، جامعہ بنوری ٹاؤن، جامعہ دار العلوم کراچی، جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد اور دار العلوم امجدیہ کراچی ہیں ۔اس کے اس جھوٹ کی تردید اس وقت کے امامِ کعبہ شیخ محمد بن عبد اللہ ابن سبیل نے بھی کی کہ اس کی تصویر حجر اسود میں دیکھی گئی ہے اور فرمایا کہ اس وقت پورے حرم میں حماد بن عبداللہ نامی کوئی امام نہیں ہے جس کا فرضی نام اس شخص نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے لیا تھا اور اس پر فتویٰ ارتداد بھی صادر فرمایا۔ آج کل ریاض احمد گوہر شاہی کا خلیفہ یونس الگوہر انگلینڈ میں بیٹھ کر ہرزہ سرائیاں کرتا ہے.
اس فتنے کی مزید تحقیق کے لیے سعید احمد جلال پوری صاحب کی کتاب ”دورِ جدید کا مسیلمہ کذاب“ محمد نواز فیصل آبادی کی کتاب ”گوہر شاہیت اور قادیانیت اسلام کی عدالت میں“ اور مفتی نعیم صاحب کی کتاب ”ادیانِ باطلہ اور صراطِ مستقیم“ کا مطالعہ کریں۔
اس کا اصل نام ریاض احمد تھا،والد کا نام فضل حسین مغل تھا جو کہ ایک سرکاری ملازم تھا۔ گوہر شاہی دادا کی طرف نسبت ہے جس کا نام گوہر علی شاہ تھا جو کہ سری نگر کشمیر کے رہائشی تھا،وہاں اس سے ایک قتل سرزد ہوا، پکڑے جانے کے ڈر سے راولپنڈی آ گیا اور نالہ لئی کے پاس رہائش پذیر ہوا ، جب انگریزی پولیس کا ڈر زیادہ ہوا تو فقیری کا روپ دھار کر تحصیل گوجر خان کے ایک جنگل میں ڈیرہ لگایا ، جہاں کافی لوگ اس کے مرید ہو گئے اور جنگل کو نذرانے میں پیش کر دیا ، یہی جنگل ڈھوک گوہر علی شاہ کے نام سے آباد ہوا اور یہیں ریاض احمد گوہر شاہی ۲۵ نومبر ۱۹۴۱ میں پیدا ہوا۔
تعلیم : اپنے گاوں میں ہی مڈل پاس کیا اور پھر پرائیویٹ طور پر میڑک کیا، اس کے بعد ویلڈنگ اور موٹر میکینک کا کام سیکھ کر اس کی دوکان کھولی ؛ مگر اس میں کوئی نفع حاصل نہ ہوا ۔ حصولِ روزگار کے لیے پریشانی ہوئی تو اس نے سوچا کہ دادا والا کام دھندہ یعنی پیری مریدی شروع کر دی جائے۔۔۔اس کے لیے ابتداء خانقاہ کے چکر لگائے، خود لکھتا ہے : ”کئی سال سیہون کے پہاڑوں اور لال باغ میں چلے اور مجاہدے کیے مگر گوہرِ مراد حاصل نہ ہوا اور پھر بری امام اور داتا دربار بھی رہا ؛ مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔۔۔ مزید لکھتا ہے ::: اس کے بعد طبیعت بگڑ گئی ۔ بیس سال کی عمر سے تیس سال تک ایک گدھے کا اثر رہا(گوہر شاہی ایک خیالی گدھے پر بیٹھ کر آسمانوں کی سیر کر چکا ہے) نماز وغیرہ ختم ہو گئی ، جمعہ کی نماز بھی ادا نہ ہو سکی ۔ زندگی سینماؤں اور تھیٹروں میں گزرتی ۔۔۔ حصولِ دولت کے لیے حلال و حرام کی تمیز جاتی رہی ۔ بے ایمانی ، جھوٹ اور فراڈ شعار بن گیا۔ (روحانی سفر ص: ۱۳تا۱۶) پھر ایک مرتبہ عزم مضبوط کر کے سندھ کے پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ علاقے جام شورو ٹیکسٹ بک بورڈ میں جھونپڑی ڈال کر پیری مریدی شروع کر دی ، کچھ کمزور عقیدہ لوگوں کی آمد شروع ہو گئی ،،، لیکن قریبی یونیورسٹی کے پرنسپل نے سارا منصوبہ خاک میں ملا دیا اور جھونپڑی اُکھاڑنے کا حکم دیا ، ہم نے چپ چاپ اکھاڑ لی (روحانی سفر ۔۹،۸)
پھر حیدر آباد، سرے گھاٹ میں رہنے لگا ، اپنے آپ کو سید ظاہر کیا جب کہ تھا مغل ۔۔۔ سندھ کے لوگ چونکہ سید کے نام پہ مرتے ہیں ؛ اس لیے اس کی کافی پذیرائی کی۔۔۔ یہیں سے شہرت ملی اور ۱۹۸۰ میں اس نے کوٹری حیدر آباد ، سندھ ، خورشید کالونی سے ہی (انجمن سرفروشانِ اسلام)کی بنیاد ڈالی اور اپنے منگھڑت عقائد کا پرچار شروع کیا ۔ اس کے گمراہ کن عقائد و نظریات اور باطل دعوے مندرجہ ذیل ہیں ۔
اللہ کی توہین: حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ مجبور ہے اور شہ رگ کے پاس ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتا ہے ، مزید فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی اللہ کے ہاتھ میں دیکھی۔
انبیاء کرام کی توہین : حضرت آدم کو حسد اور شرارتِ نفس کا مریض قرار دینا ، حضرت موسیٰ کی قبر کو جسدِ اطہر سے خالی اور شرک کا اڈا باور کرانا اور حضرت خضر کو قاتلِ نفس گردانتے ہوئے ان کی توہین کرتا ہے۔ (روحانی سفر)
جعلی کلمہ : کلمہ میں محمد رسول اللہ کی جگہ اس ظالم نے گوہر شاہی رسول اللہ لکھوایا۔ (حق کی آواز)
قرآن پاک کے بارے میں لکھا ہے : تیس پارے ظاہری قرآن پاک اور دس پارے باطنی ملا کر چالیس پارے ہوئے اور یہ ہم پر عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریعے منکشف ہوئے۔ (حق کی آواز ، ص:۵۴،۵۲)
اس کے علاوہ اولیاء اللہ کی توہین ، حضرت رابعہ بصریہ جیسی پاکباز کو طوائف کہنا ، شریعت اور طریقت کو الگ کرنا ، حضور کی زیارت کے بغیر امتی نہ ہونے کا قول کرنا اور حضور سے بالمشافہ ملاقات اور علم سیکھنے کا مدعی ہونا اور اپنے لیے معراج اور الہام کا دعویدار ہونا ، اس کی زہر افشانیوں میں شامل ہے۔ اپنے ان گمراہانہ عقائد و نظریات اور دعاوی کے اثبات اور ترویج کے لیے اس نے بہت سی کتابیں لکھیں روحانی سفر، روشناس، مینارہ نور ، تحفۃ المجالس، حق کی آواز اور تریاقِ قلب وغیرہ ۔
آج کل مہدی فاؤنڈیشن اور مسیحا فاؤنڈیشن کے نام سے یہ جماعت مصروف عمل ہے اور اس نام سے ان کی کئی سائیٹس بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں ۔ اس کے ان گمراہانہ عقائد و نظریات کو دیکھتے ہوئے اور اس کی صفت دجالیت کو بر وقت بھانپتے ہوئے ملک کے نامور علماء اور دینی مدارس نے اس پر مرتد و کافر ، ملحد ، زندیق اور ضال و مضل کا فتویٰ صادر کیا ، ان میں سرِ فہرست جامعہ فاروقیہ، جامعہ بنوری ٹاؤن، جامعہ دار العلوم کراچی، جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد اور دار العلوم امجدیہ کراچی ہیں ۔اس کے اس جھوٹ کی تردید اس وقت کے امامِ کعبہ شیخ محمد بن عبد اللہ ابن سبیل نے بھی کی کہ اس کی تصویر حجر اسود میں دیکھی گئی ہے اور فرمایا کہ اس وقت پورے حرم میں حماد بن عبداللہ نامی کوئی امام نہیں ہے جس کا فرضی نام اس شخص نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے لیا تھا اور اس پر فتویٰ ارتداد بھی صادر فرمایا۔ آج کل ریاض احمد گوہر شاہی کا خلیفہ یونس الگوہر انگلینڈ میں بیٹھ کر ہرزہ سرائیاں کرتا ہے.
اس فتنے کی مزید تحقیق کے لیے سعید احمد جلال پوری صاحب کی کتاب ”دورِ جدید کا مسیلمہ کذاب“ محمد نواز فیصل آبادی کی کتاب ”گوہر شاہیت اور قادیانیت اسلام کی عدالت میں“ اور مفتی نعیم صاحب کی کتاب ”ادیانِ باطلہ اور صراطِ مستقیم“ کا مطالعہ کریں۔
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.