Skip to main content

وینٹی لیٹرز کیوں ضروری ہیں!

کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں ایٹمی طاقتیں بھی پریشان نظر آرہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ لڑنے کے لیے ایٹم بم، میزائل، لڑاکا طیارے اور ٹینک نہیں، وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وبا کے دنوں میں کسی ملک کے پاس اس کی ضرورت کے مطابق یہ مشین نہیں ہے۔
سادہ الفاظ میں وینٹی لیٹر ایک ایسی مشین ہوتی ہے جو اس مریض کو آکسیجن فراہم کرتی ہے جو خود سانس نہیں لے سکتا۔ ایک ٹیوب کے ذریعے آکسیجن کو مریض کے پھیپھڑوں تک پہنچایا جاتا ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کرونا وائرس کا حملہ انسان کے پھیپھڑوں اور نظام تنفس پر ہوتا ہے۔ وینٹی لیٹر دستیاب ہونے کی صورت میں مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ وینٹی لیٹر نہ ملنے کی صورت میں مریض انتقال کرجاتا ہے۔
عام حالات میں کسی ملک کے ہیلتھ کئیر سسٹم کو بہت زیادہ وینٹی لیٹرز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پورے ملک میں مریضوں کے لیے جتنے بستر موجود ہوتے ہیں، ان کا محض چند فیصد انتہائی نگہداشت یعنی آئی سی یو کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ آئی سی یو میں بھی ہر مریض کے لیے وینٹی لیٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اسپتالوں میں زیادہ وینٹی لیٹرز نہ ہونے کی ایک وجہ ان کا مہنگا ہونا بھی ہے۔ ایک وینٹی لیٹر پچیس ہزار سے پچاس ہزار ڈالر تک کا ہوتا ہے۔ کوئی سرکاری یا نجی اسپتال اتنی تعداد میں وینٹی لیٹرز نہیں خریدتا کہ وہ خالی پڑے رہیں۔
لیکن کرونا وائرس کے حملے کے بعد پوری دنیا میں وینٹی لیٹرز کی اہمیت بڑھی ہے اور ہر ملک زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہ مشین حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وینٹی لیٹرز بنانے والی کمپنیوں کو اتنے آرڈر مل رہے ہیں جو وہ اپنی استعداد بڑھانے کے باوجود مہینوں تک پورے نہیں کرسکیں گی۔
دنیا میں سب سے زیادہ وینٹی لیٹرز امریکہ کے پاس ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ 70 ہزار ہے۔ اس کے باوجود حکام اور ماہرین صحت پریشان ہیں کہ کرونا وائرس کے حملے پر قابو پانے کے لیے یہ تعداد کافی نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بدترین حالات میں ساڑھے 9 لاکھ وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
امریکہ کی کار بنانے والی کم از کم تین کمپنیاں سارے کام چھوڑ کر وینٹی لیٹر بنانے میں لگ گئی ہیں تاکہ کرونا وائرس سے لوگوں کو بچانے میں کردار ادا کرسکیں۔ یورپ میں بھی گاڑیاں اور دوسری مشینیں بنانے والے ادارے تیزی سے وینٹی لیٹرز تیار کرنے کی دوڑ میں شامل ہورہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت دنیا بھر کے ملکوں کے صحت کے نظاموں کی درجہ بندی کرتا ہے۔ ان میں پہلے نمبر پر فرانس، دوسرے پر اٹلی اور ساتویں پر اسپین ہے۔ لیکن اس وبا میں تینوں ناکام دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کافی تعداد میں وینٹی لیٹرز نہیں ہیں۔ فرانس کے پاس 5065 اور اٹلی کے پاس 5200 وینٹی لیٹرز ہیں۔ اسپین کے پاس ان سے بھی کم تعداد ہےاسی لیے ان ملکوں میں بڑی تعداد میں مریض ہلاک ہوئے۔
اٹلی میں ساڑھے پانچ ہزار ہلاکتوں کے مقابلے میں جرمنی میں صرف 115 افراد جان سے گئے۔ اتنے بڑے فرق کی وجہ یہ ہے کہ جرمنی میں 25 ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں ‘اور وہ اپنے مریضوں کو بچاسکتے ہیں۔ جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے وبا پھوٹتے ہی مزید 10 ہزار وینٹی لیٹرز کا آرڈر دے دیا تھا۔
ایک اور ملک جس کے پاس کافی تعداد میں وینٹی لیٹرز ہیں، روس ہے۔ پورے روس میں 40 ہزار وینٹی لیٹرز ہیں جن میں سے 5 ہزار سے زیادہ صرف ماسکو میں ہیں۔ ابھی تک روس میں کرونا وائرس سے صرف ایک شخص ہلاک ہوا ہے
برطانیہ کے سرکاری اسپتالوں میں 8175 وینٹی لیٹرز موجود ہیں لیکن حکومت نے وبا کی وجہ سے نجی اسپتالوں کو تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح ان میں مزید وینٹی لیٹرز کا اضافہ ہوگیا ہے۔ آئرلینڈ میں 1229 اور اسرائیل میں 3100 وینٹی لیٹرز ہیں لیکن ان ملکوں نے سیکڑوں مشینوں کے نئے آرڈر دے دیے ہیں
بھارت میں وینٹی لیٹرز کی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن اس کی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ تعداد کم ہے۔ بہت سے شہروں میں ایک بھی وینٹی لیٹر نہیں جس کی وجہ سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ وبا پھیلی تو بھارت کو بڑا نقصان ہوسکتا ہے
کرونا وائرس سے سب سے پہلے متاثر ہونے والے چین میں بھارت سے بھی کم یعنی 15 ہزار اور ووہان میں 600 وینٹی لیٹرز تھے جس کی وجہ سے وہاں بڑی تعداد میں مریض ہلاک ہوئے۔ اندازہ ہے کہ چین نے جس طرح تیزی سے عارضی اسپتال بنائے، اسی طرح بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز بھی تیار کیے جس سے ہلاکتوں کا سلسلہ گھٹ گیا۔ اب چین دوسرے ملکوں کو وینٹی لیٹر فراہم کررہا ہے جن میں اٹلی اور پاکستان شامل ہیں۔ اس نے اٹلی کو 30 اور پاکستان کو 800 وینٹی لیٹرز فراہم کردیے ہیں۔
چین سے امداد ملنے سے پہلے پاکستان میں صرف 1700 وینٹی لیٹرز تھے جن میں سے کچھ خراب بھی ہیں اور ان پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر تمام مشینیں بالکل ٹھیک ہوں تب بھی نئے اور پرانے وینٹی لیٹرز کی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں جو 22 کروڑ کی آبادی کے حساب سے قطعی ناکافی ہے

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان کا قومی جانور مار خور پہاڑوں پر رہنا کیوں پسند کرتا ہے؟ جانیں اس کے بارے میں دلچسپ معلومات

پاکستان کا قومی جانور مارخور ہے۔ مارخور ملک بھر میں تو زیادہ نہیں پایا جاتا کیونکہ یہ ایک سرد علاقے میں رہنے والا جانور ہے اس کے بارے میں یہ کہنا بلکل غلط نہ ہوگا کہ اس کو انسان بلکل پسند نہیں ہیں کیونکہ یہ اونچے پہاڑوں پر پایا جاتا ہے۔  مارخور کا نام تھوڑا عجیب ہے فارسی زبان میں "مار" کے معنی ہیں سانپ اور " خور" سے مراد ہے کھانے والا یعنی " سانپ کھانے والا جانور"۔ مگر ایسا حقیقت میں ہر گز نہیں ہے کیونکہ یہ گھاس پھوس کھانے والا جانور ہے۔  گلگت بلتستان میں مختلف اقسام کے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں  جن میں مشہور جانور مارخور شامل ہے۔ یہ جانورانسان کی نظروں حتی کہ انسانی سائے سے بھی دور رہنا پسند کرتا ہے۔ مارخور کا قد 65 تا 115 سینٹی میٹر جبکہ لمبائی 132 تا 186 سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ اس کا وزن 32 تا 110 کلوگرام تک ہوتا ہے۔  مارخور کا رنگ سیاہی مائل بھورا ہوتا ہے اور ٹانگوں کے نچلے حصے پر سفید و سیاہ بال ہوتے ہیں۔ نر مارخور کی تھوڑی، گردن، سینے اور نچلی ٹانگوں پر مادہ کے مقابلے زیادہ لمبے بال ہوتے ہیں  مادہ کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے  جسم ا...

مریم نواز کیخلاف غیر قانونی اراضی منتقلی کا کیس، نیب نے ایسا کام کردیا کہ شریف خاندان کی پریشانیاں بڑھ جائیں گی........

  مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے خلاف غیر قانونی;  اراضی منتقلی کا کیس، نیب نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا، ماسٹر پلان تبدیلی    کے باعث نقصان کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف غیر قانونی اراضی منتقلی کے کیس میں قومی احتساب بیورو نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مذکورہ , جگہ کے ماسٹر پلان میں ہونے والی تبدیلی کے باعث نقصان کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے,  اور اس سلسلہ میں نیب نے 2004 کے لاہور ماسٹر;  پلان کی 2013 میں تبدیلی کے متاثرین کو شکایات کے;  اندراج کا حکم جاری کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ماسٹر پلان تبدیلی سے رہائشی اراضی کو زرعی اراضی پر منتقل کرنے سے عام شہریوں کا کروڑوں کا نقصان ہوا۔ مریم نواز شریف نے پالیسی تبدیلی سے فائدہ اٹھاتے 200 ایکڑ، میاں نواز شریف نے 100 کنال جبکہ میاں شہباز شریف نے100 کنال اپنے نام منتقل کرائی  ۔ نیب نے;  تمام متاثرین کو ڈی جی نیب کے نام پر درخواست دائر کرانے کا حکم دیا ;; ہے۔  

کابل سکول کے باہر خودکش دھماکے ، جاں بحق افراد کی تعداد 68 ہوگئی ...............

افغان دارالحکومت کابل میں ایک ; سکول کے باہر خودکش کاربم کےبعدیکے بعد دیگر ے ہونے والے دوبم دھماکوں میں جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 68 ہوگئی جبکہ 165 سے زائد زخمیوں کو;  شہرکے مختلف ہسپتالوں میں داخل کرادیا گیا ہے،زخمیوں میں  کئی افراد کی حالت;  نازک بتائی جاتی ہے جن کی وجہ سے ہلاکتوں میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے۔   سیدالشہداءسکول کے سربراہ علی ; خان احسانی اور افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کے مطابق ہفتہ کی ; سہ پہر تقریباًساڑھےچاربجےکابل شہر کےمغرب میں واقع دشت ارچی کےعلاقےمیں سیدالشہدا ء ہائی سکول کی عمارت کے داخلی دروازے کے باہر پہلے ایک کرولاکارنے آکر بم;    دھماکہ کرایا جس کے چند منٹ بعد مزیددو دھماکے ہوئے جن کی زدمیں آکر سکول سے رخصت ہونے والی متعدد طالبات سمیت سینکڑوں افرادجاں بحق اور زخمی ہوگئے۔خودکش کاربم دھماکے علاوہ دو بم دھماکوں کی نوعیت کے;  بارے میں افغان حکام نے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی ۔ اطلاعات ملتے ہی سیکیور ٹی فورسز کی بڑی تعدادنے علاقے کا گھیراؤکرلیا اورسائرن بجاتی ہوئی درجنوں ایمبولینس;   گاڑیاں تیزی سے جاں بح...