واشنگٹن —
نیویارک شہر کے ریستوران بھی ان میں شامل ہیں، جو اپنی گہما گہمی اور انواع و اقسام کے کھانوں کے لئے مشہور تھے، اب ویرانی کا منظر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کا کاروبار عملاً ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
اس منظر نامے میں وہ لوگ جن کا اس کاروبار میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مستقبل کیا ہوگا اور اس صنعت کو اب کس طرح بچایا جائے اور اس کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑیں گے۔ مالکان سخت پریشان ہیں
اس لئے کہ ان کا بزنس صرف گاہکوں کے آرڈر اور ڈیلوری سروس تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور ماضی کے مقابلے میں یہ انتہائی درجے سکٹر چکا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لئے نامہ نگار دینا ٹرین نے تاجروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ موجودہ حالات میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ بحالی کب اور کتنی جلد ہو سکے گی؟
شہرت یافتہ شیف ٹوم کولیکیو کا کہنا ہے کہ شہر کے ریستورانوں کو اپنی بقا کے لئے طویل المدت بنیاد پر مالی اعانت درکار ہوگی
۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بندشوں میں نرمی کے بعد جب کاروبار کھلیں گے تو بہرحال حفاظتی ضوابط پر عمل کرنا ہوگا، جن سے اخراجات میں اضافہ ہوگا، جبکہ دوسرے کاروبار کی طرح ریستوران بھی پہلے ہی سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں۔
ٹوم کولیکیو نے ریستورانوں کی بحالی کے لئے ایک ادارہ قائم کیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کو ایک امدادی پیکج دینا چاہئے جس سے آٹھ سے بارہ مہینوں تک اس صنعت کو سنبھالا مل سکے۔
نیویارک سٹی کونسل کی ایک تجویز میں کہا گیا ہے کہ بعض حصوں میں سڑکوں کو بند کرنے کے لئے عمل کو وسعت دے دی جائے، تاکہ فوڈ اسٹریٹ کی طرز پر کاروبار پھل پھول سکے۔ ساتھ ہی کشادہ فٹ پاتھوں پر نشتوں کا طریقہ کار بھی اختیار کیا جائے۔
لیکن، نیویارک سٹی جیسی آبادی میں جہاں ستائس ہزار کے قریب ریستوران موجود ہیں، یکساں نظام اپنانا دشوار ہے۔ ایک اور تجویز یہ بھی ہے کہ جبکہ بیروزگاری اور بھوک کا مسلہ برقرار ہے ریستورانوں کو فنڈ مہیا کئے جائیں، تاکہ وہ کمیونٹی کے فوڈ سینٹر کا کام سرانجام دے سکیں۔
ریستوران کی صنعت سے وابستہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا خدشہ جو منڈلا رہا ہے وہ یہ کہ ریستورانوں کا کاروبار تو شروع ہوگا لیکن ہوسکتا ہے کہ جلد ہی ان کا سرمایہ ختم ہوجائے اور ان میں ہمیشہ کے لئے تالہ لگ جائے۔
انھوں نے کہا کہ ایک ایسا شہر جو کبھی نہیں سوتا، اب اپنے مستقبل سے پریشان، گویا نیند کی کیفیت میں مبتلا ہے، جس کی مکمل بحالی کے آگے سوالیہ نشانات تو زیادہ ہیں لیکن ان کے جواب بہت ہی کم ہیں۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا نے دنیا بھر میں اقتصادی شعبے میں جس طرح تباہی مچائی ہے وہ تصور سے باہر ہے۔ کرہ ارض کے تمام ممالک یکساں طور پر اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں چاہے وہ کسی خطے ہی میں کیوں نہ واقع ہوں۔
بعض ترقی پزیر ملکوں میں فاقہ کشی کی نوبت آپہنچی ہے اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ، چاہے ان کا تعلق امیر ملکوں سے ہو یا غریب ملکوں سے، بیروزگاری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس صورت میں مستقبل کے لئے کوئی اچھی پیش گوئی محال ہے اور بے یقینی اور مایوسی کے بادل بدستور چھائے ہوئے ہیں۔
بہت سے شہر جہاں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی اور جو اقتصادی مواقع اور خوشحالی کی علامت سمجھے جاتے تھے، اب اپنی رونقوں سے گویا محروم ہوگئے ہیں۔ ان میں نیویارک کا شہر بھی شامل ہے جہاں زندگی کا ہر شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔اس لئے کہ ان کا بزنس صرف گاہکوں کے آرڈر اور ڈیلوری سروس تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور ماضی کے مقابلے میں یہ انتہائی درجے سکٹر چکا ہے۔
۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بندشوں میں نرمی کے بعد جب کاروبار کھلیں گے تو بہرحال حفاظتی ضوابط پر عمل کرنا ہوگا، جن سے اخراجات میں اضافہ ہوگا، جبکہ دوسرے کاروبار کی طرح ریستوران بھی پہلے ہی سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں۔
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.