کراچی کی شاہراہ فیصل پر عام طور پر دوپہر کو ٹریفک کا رش رہتا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے گاڑیوں کی آمدورفت معمول سے کم تھا اس لیے ایمبولینس اور فائربرگیڈ گاڑیاں تیزی کے ساتھ ماڈل کالونی میں واقع جناح گارڈن کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دیں جہاں سے پی آئی اے کا طیارہ گرنے کے بعد دھواں اٹھ رہا تھا
ماڈل کالونی کا راستہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے سامنے سے گزر کر جاتا ہےجہاں پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 میں سوار مسافروں کے اہل خانہ میں سے کئی ایک انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے موجود ہوں گے، لیکن باہر ٹیلیویژن سکرینوں پر جب اس طیارے کے حادثے کے پہلے ٹِکر، پھر خبر اور آخر میں تصاویر آنے کے بعد معلوم نہیں اس وقت کیا منظر ہوگا، یہ ہی سوچتے ہم ملیر کینٹ کی طرف روانہ ہوئے
شاہراہ فیصل سے سپر ہائی وے کو یہ ہی سڑک ملاتی ہے جو ملیر کینٹ سے گزر کر جاتی ہے۔ گیٹ نمبر پانچ سے ایک طرف ماڈل کالونی کی سویلین آبادی ہے تو دوسری جانب چھاؤنی کا رہائشی علاقہ ہے۔ یہاں سے ایئرپورٹ کا رن وے چند سو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔
ہم جیسے ہی وہاں پہنچے تو سڑک پر جابجا کاریں اور موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ چھاؤنی قریب ہونے کی وجہ سے فوج کے جوانوں کی بھی ایک بھاری نفری موجود تھی، ان کے ساتھ رینجرز، پولیس، پولیس کی ایلیٹ فورس کے جوان اور ان کی گاڑیاں اس قدر تعداد میں تھیں کہ فائر برگیڈ اور ایمبولینس کو گزرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
فلاحی اداروں ایدھی اور چیپا کی ایمبولینسوں میں میتیں منتقل کی جارہی تھیں، شیشے سے جیسے نظر پڑتی تو اندر لاش جھلسی ہوئی نظر آتی جس سے اندازہ ہوجاتا تھا کہ ان مسافروں کی شناخت میں بڑی دشواری ہوگی
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی حال ہی میں کورونا سے صحتیاب ہوئے ہیں۔ وہ وہاں اپنی ریسکیو ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جب پہنچے تو دھواں تو نہیں تھا لیکن آگ ابھی بھڑک رہی تھی، گلی میں رسائی بہت دشوار تھی، وہ بڑی مشکل سے داخل ہوئے اور جو زخمی تھے چار پانچ انہیں ہسپتال کے لیے روانہ کیا
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.