تونسہ، دو بچوں کی ماں ،حافظ آباد، 6افراد کی خاتون سے غلط کاری ، پنڈدادنخان، 3افراد کی لڑکی سے غلط کاری ، جہلم، امام مسجد کی 6سالہ بچی سے غلط کاری ، لاہور، 9سالہ بچے سے دکاندار کی غلط کاری ، 19سالہ لڑکی کو سرور آور شے پلا کر غلط کاری
نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں
اور اسکے علاوہ کئی ایسے کیسز یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک صوبے پنجاب کی ایک دن کی کارگزاری،جی ہاں یہ سب ایک دن میں ہوا۔یہ سب چھوڑیں، فوکس غلط کاریوں پر رکھیں، ایک دن میں یہ سب کچھ، ابھی بھی کوئی شک یہ بیمار، ابنارمل معاشرہ نہیں، مگر حیرت یہ، ابھی اس گلے سڑے نظام کے بہت سارے وکیل، کئی خواتین وحضرات فرما رہے، جب آئین وقانون موجود،تب سرِعام سزا، ناکارہ بنانے کی سزا کیوں، مطلب ان سب کے مطابق شکارسب بچے، بچیوں،ان کے والدین، رشہ داروں کو اکٹھا کریں، انہیں ہنس ہنس کر (جیسے قومی اسمبلی میں ہنسا جارہاتھا) سمجھایا جائے، میرے پیارو، اس ملک کا ایک آئین ہے، جس میں غلط کاری کرنے والے کا ایک وقارہے۔اس ملک کا ایک قانون ہے
جس میں اس کی سزا کی شرح 3سے چار فیصد، مطلب ایسے 100،ملزموں میں سےصرف 3یا چار کو سزا ہوتی ہے
میرے پیارو اس ملک کا ایک نظام انصاف بھی ہے جو کبھی کسی غریب کو بروقت انصاف نہیں دے سکا، اس ملک کی پولیس بھی ہے جس سے کبھی کوئی خیر کی توقع نہیں، میرے پیارو، غلط کاری کراؤ، سفارش یا رشوت دے کر ایف آئی آر درج کراو
پھر زمین بیچ کر ملزم گرفتار کراؤ، گھر بیچ کر مقدمہ لڑو، پولیس چتر چالاکیاں، کمزور تفتیش بھگتو،صلح کیلئے دباؤپڑے، دھمکیاں ملیں صبر کرو،، گواہ مکر جائیں، فیصلہ خلاف آجائے، آرام سکون سے بیٹھ جاؤ، روزجینے، روزمرنے کیلئے
کوئی نہ سوچے اگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اگر پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ،
ہونا تو یہ چاہیے کہ انکی علیحدہ عدالتیں ہوں، روزانہ کی بنیادپر سماعت ہو، ایک یا 3ماہ کے اندر سرعام سزا یا مردانہ طور پر ناکارہ کرنے کی سزا، آپ نے 73سال ہومیوپیتھک نظام انصاف میں گزار لئے،اب 5سال یہ کر کے دیکھ لیں، انسان نما درند وں کے ہوش ٹھکانے نہ آگئے تو کہیے گا، اندازہ کریں، زینب کامجرم آٹھویں جرم پر پکڑا گیا،اگر میڈیا دباؤ نہ ہوتا،یہ کیس روٹین میں چلتا، اس نے آٹھویں بار بھی چھوٹ جانا تھا،سانحہ موٹروے کا ملزم عابد،13وارداتیں، کئی بار غلط کاری کی ، چھوٹ گیا، ملزم شفقت 11وارداتیں، چھوٹ گیا۔بقول استادِ محترم حسن نثار ہم بڑے فخریہ کہیں۔ہماری آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل، ہم فخریہ اپنی یوتھ کے تذکرے کریں،اب مہنگائی، بے روزگاری، فرسٹریشن، سفوکیشن، بے انصافی اور غصہ اسی یوتھ کو اثاثے سے لائیلٹی میں ڈھال رہا، بالکل ایسے ہی جیسے کل تک اسٹیل مل، پی آئی اے،ریلوے ہمارے اثاثے تھے، آج بوجھ بن چکے،بے کار، فارغ، دماغ شیطان کی ورکشاپ، اوپرسے آوارگی، اوپر سے ان پڑھ، نیم پڑھی جوانی دیوانی، اوپر سے کتھارسس نہ گرومنگ، اوپر سے جرائم کے بے تحاشا مواقع، اوپر سے سزا کے بغیر معاشرہ۔لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے انسان سازی، کردار سازی کی طرف توجہ دیں، باقی کل سی سی پی او کے بیان پر رونا رویا جارہا تھا، اب اس میں اپنی پارلیمنٹ بھی شامل ہوگئی، سانحہ موٹروے پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں ایسے ٹھٹھے مذاق ہوئے کہ خواتین پارلیمنٹرین شیم شیم کے نعرے لگانے پر مجبور ہوگئیں۔کیا کریں زینب پریس کانفرنس کے دوران مذاق، سانحہ اے پی ایس لائیوپریس کانفرنس میں مذاق، سانحہ موٹروے بحث میں طنزومزاح، یقین مانیے اب تو ان خودساختہ بڑوں کی کسی ماہر نفسیات سے ذہنی کونسلنگ کرانے کو دل چاہے، انہیں یہ بتانے کو دل چاہے اگر سیاسی، پوائنٹ اسکورنگ ہی کرنی تو شوق سے کریں، لیکن کم ازکم دکھ، صدمے کے موقع پر دکھ، صدمے کی اداکاری ہی کرلیں، یوں زخموں پر نمک پاشی تو نہ کریں
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.