وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جنسی زیادتی میں ملوث مجرمان کو نامرد بنایا جائے تاکہ وہ ناکارہ ہوجائیں اور آئندہ کچھ نہ کرسکیں۔گزشتہ ہفتے 9 ستمبر کو لاہور میں ایک خاتون کو موٹروے پر اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ میں ملوث ایک ملزم کو پولیس نے گرفتار کرلیا جبکہ دوسرا ملزم تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہے۔واقعہ کے بعد ملک میں ایک بار پھر ریپ کیلئے سزا کے تعین پر بحث جاری ہے۔ عوام کی بڑی تعداد مجرمان کو سرعام پھانسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ مفتی تقی عثمانی نے بھی کہا ہے کہ اسلام نے ایسے جرائم کیلئے ’عبرت ناک‘ سزائیں دینے کا حکم دیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے 92 نیوز کے پروگرام میں اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ریپ کے مجرمان کو کیمکیل یا سرجری کے ذریعے نامرد بنایا جائے تاکہ وہ آئندہ کچھ کر ہی نہ سکیں۔وزیراعظم نے اپنے موقف کے بارے میں یہ دلیل پیش کی کہ دیگر کئی ممالک میں بھی نامرد بنانے کی سزا رائج ہے۔آگے چل کر عمران خان نے کہا کہ جس طرح فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ ڈگری hاسی طرح ریپ کے جرم کی بھی بھی گریڈ کریں۔ جو فرسٹ ڈگری ہو، اس کو تو نامرد بنا دیں
ان کا آپریشن کرکے ناکارہ کرکے رکھ دیں۔
ریپ کی سزا: اسلامی قانون کیا کہتا ہےدوسری جانب مفتی تقی عثمانی نے ریپ کے واقعات کو ’فساد فی الارض‘ کے زمرے میں شمار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی صورت میں ’عبرت ناک سزا‘ دینے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔سماء ٹی وی کے پروگرام میں میزبان ندیم ملک نے اسلامی شریعت کا نکتہ نظر جاننے کیلئے دارالعلوم کراچی کے مہتمم مفتی تقی عثمانی سے رائے مانگی۔ انہوں نے قرآن مجید کی سورۃ نور کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریپ کے واقعات فساد فی الارض یعنی زمین پر فساد برپا کرنے کے مترادف ہے۔مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ایسی صورت میں حاکم کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سزا کا تعین کرے مگر سزا ایسی ہو کہ دیکھ کر لوگوں کے ’رونگھٹے کھڑے‘ ہوجائیں اور لوگوں کے سامنے دی جانی چاہیے تاکہ عوام پر اس کا اثر پڑے۔مفتی تقی عثمانی نے مگر حاکم کے صوابدید پر پر شرط رکھ دی کہ ’جب قانون موجود نہ ہو تو حاکم کو اختیار حاصل ہے۔ پچھلے زمانے میں حاکم خود سزا دیتا تھا۔ لیکن ہمارے ہاں قانون موجود ہے تو قانون سازی کے اندر گنجائش ہونی چاہیے تاکہ حاکم کو اختیار حاصل ہوجائے تاکہ وہ عبرت ناک سزا کا تعین کرسکے۔‘ڈین این اے بطور شہادت قبول کیا جاسکتا ہےمذہبی حلقے میں یہ بات زیر بحث رہتی ہے کہ کیا ڈی این اے ٹیسٹ بطور شہادت یا ثبوت کے طور پر قبول کی جاسکتی ہے یا نہیں مگر مفتی تقی عثمانی نے آج کی گفتگو میں واضح طور پر کہا کہ اس کو بطور شہادت قبول کیا جاسکتا ہے۔میزبان ندیم ملک نے ان سے سوال کیا کہ ڈین این اے ٹیسٹ یا کسی بھی شفاف طریقے سے جرم ثابت ہوجائے تو کیا حاکم سزا کا تعین کرسکتا ہے۔ اس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ’ 100 فیصد سزائے موت دی جاسکتی ہے اور موت کیلئے بھی عبرتناک طریقہ اختیار کرنا چاہیے حاکم یہ بھی اختیار ہے۔انہوں نے کہا کہ جب تک ایسی ہیبت ناک سزا نہ دی جائے کہ لوگوں کے رونگھٹے کھڑے اس وقت تک جرائم جاری رہیں گے۔ جیلیں بھرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ قید میں مجرم مزید جرائم پیشہ بن جاتا ہے
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.