Ya Lلاہور”ہمارے ملک میں ہر روز درجنوں بچے بچیاں لڑکیاں اور خواتین شیطان صفت انسان نما جانوروں کی غلط کاریوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ قصور کی بے قصور زینب سے لے کر لاہور سیالکوٹ موٹروے لنک روڈ پر ایسے حیوانوں کے مکروہ ارادوں کا شکار ہونے والی متمول طبقے کی شریف خاتون
۔ لاتعداد معصوم بچیاں اور لڑکیاں و خواتین اس بدی کا نشانہ بن گئیں ، آخر ماضی میں شاندار روایات اور اقدار رکھنے والا ہمارا اسلامی معاشرہ ایک جنگل سے بھی بدتر کیوں ٹھہرا؟
یہ درندے بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اسی میں پیدا ہوتے اور پلتے بڑھتے ہیں ، آخر ان میں یہ حیوانی خصوصیات کیوں پیدا ہو جاتی ہیں اور انکے دماغ کو اتنی گرمی کیوں چڑھ جاتی ہے کہ وہ اندھے ہو کر ایسے سنگین جرائم کر بیٹھتے ہیں
اس انتہائی اہم اور حساس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے اپنے ایک جاننے والے مشہور ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انکے جواب نے ہمیں چونکا دیا ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب بتانے لگے
کچھ عرصہ قبل بھارت سے ایک خبر آئی تھی کہ وہاں ایک دھندہ کروانے والی ایک ایسی عورت کو گرفتار کیا گیا ہے جو اپنے پاس موجود نوجوان اور کم عمر لڑکیوں کو گائے بھیبنسوں کو لگائے جانے والے وہ ٹیکے استعمال کرواتی تھی
جو انہیں دودھ کی پیداوار بڑھانے اور ان میں زیادہ سے زیادہ دودھ اتارنے کے لیے لگائے جاتے ہیں
ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا ۔۔۔۔ حیران مت ہوں کہ اس خبر کا ہمارے معاشرے اور اس مسئلے سے کیا تعلق ؟
ایسے ہی ٹیکے ہمارے ملک کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں گائیوں بھینسوں کو بھی اسی مقصد کے لیے لگائے جاتے ہیں ۔ اور قوی امکان ہے کہ دودھ اور کھانے پینے کی چیزوں میں یہ خطرناک ملاوٹ انسانی جسم و دماغ پر خوفناک اثرات مرتب کر رہی ہے
ہمارے معاشرہ میں چونکہ ملاوٹ عام ہے ، درجنوں خطرناک کیمکلز کھانے پینے کی چیزوں میں بے دریغ استعمال کیے جارہے ہیں اور آج ہمارے ملک میں شاید ہی کھانے پینے کی کوئی ایسی چیز ہو جو ملاوٹ سے پاک ہو ۔ اس ملاوٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہمارے بچے بچیاں 10 اور 12 سال کی عمر میں بالغ ہو جاتے ہیں
اور انکی جسمانی ہیت بالکل نوجوان لڑکوں اور لڑکوں جیسی نظر آتی ہے ۔ اسی حساب سے ان میں اتنی ہی جلدی اور وقت سے پہلے خواہشات جنم لیتی ہیں اور پھر ان کچے ذہنوں ، ادھ پکے انسانی جسموں سے غلطیاں سرزرد ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایسے قبیح جرائم کہ پورا معاشرہ کانپ جاتا ہے
ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا ۔۔۔ مزید یہ کہ ہمارا معاشرہ ایسے بچوں لڑکوں لڑکیوں کے لیے ایسا ماحول پیش کررہا ہے جہاں قدم قدم پر بربادی ہے ۔ بے حیائی عام ہے موبائل اور انٹرنیٹ نے دنیا جہاں کے گند یعنی غیر اخلاقی مواد تک ہر بچے بڑے کی رسائی آسان بنا دی ہے ۔ ہمارے بے لگام میڈیا ڈراموں فلموں اور تھیٹر پر پیش کیے جانے والا گند اور کاٹھ کباڑ ان آدھے کچے آدھے پکے ذہنون کو خراب کرنے کے سوا کچھ نہیں کررہا
اعضاء کی شاعری کے نام پر گندے مجرے ، دعوت دینے والا ناچ گانا اور پاکیزہ رشتوں کے درمیان غلط تعلقات کو پروان چڑھانے والے ڈرامے و فلمیں ، آپ بچوں اور نوجوانوں کو یہ ماحول حالات اور تربیت دے کر ان سے نیک اور باکردار مومن مسلمان اور اچھا انسان بننے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں
یہ بچے جوان ہو کر موقع ملتے ہی ایسے قابل نفرت جرائم کرنے لگیں تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے 90 فیصد اتفاق کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا ۔م)
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.