کورونا وائرس کے متعلق یہ معلوم ہو چکا ہے کہ , یہ کسی تیسرے جانور کے ذریعے چمگادڑ سے انسانوں کو لاحق ہوا۔ اس تیسرے جانور کے بارے میں حتمی طور پر تاحال کوئی نہیں جانتا لیکن اب نئی تحقیق میں امریکی سائنسدانوں نے یہ ہولناک انکشاف کر دیا ہے کہ چمگادڑوں میں کورونا وائرس گزشتہ 70سال سے موجود ہے۔ 1948ءمیں پہلی بار یہ وائرس; چمگادڑوں کی قسم’ہارس شو‘ (Horseshoe) میں پیدا ہوا اور تب سے چمگادڑوں میں گردش کر رہا ہے اور پنپ رہا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج میں پنسلوانیا سٹیٹ; یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس خطرے کا اظہار کیا ہے کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں جو چمگادڑوں میں موجود ہیں اور کسی بھی وقت انسانوں کو لاحق ہو سکتی ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ یہ وائرس چمگادڑ سے سانپ میں منتقل ہوا اور ووہان میں اس سانپ کا گوشت کھانے سے انسانوں کو منتقل ہو گیا۔ پھر اس تیسرے درمیانی جانور کے طور پر پینگولین کا نام بھی لیا گیا , تاہم اس تحقیق میں سائنسدانوں نے واضح کر دیا ہے, کہ کورونا وائرس چمگادڑ سے پینگولین کے ذریعے انسانوں کو منتقل نہیں ہوا۔ اس تحقیق میں سائنسدانوں نے کورونا وائرس کا جینیاتی تجزیہ کرکے اس کے ارتقاءکے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جس میں معلوم ہوا ہے کہ یہ وائرس ابتدائی طور پر 1948ءمیں پیدا ہوا اور ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے , اس شکل کو پہنچا جو آج وباءکی صورت دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران اس وائرس میں کئی میوٹیشنز آئیں۔ چنانچہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ , اس کی کئی اقسام اس وقت چمگادڑوں میں موجود ہیں، جو انسانوں کو منتقل ہونے اور آگے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.