ہاتھ میں سیپارہ سرپر ٹوپی۔۔۔ گیارہ سالہ ناز ولی کو بدفعلی کے بعد قتل کرنے کی ایسی دردناک داستان کے روح کانپ جائے..............
ے راہ روی کا شکار نوجوان معاشرے کے ناسور ہیں، جرائم کا ارتکاب کرنے سے قبل ہی محاسبہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔مملکت خدادا دمیں بعض جرائم ایسے سرزد ہوتے ہیں کہ , جنہیں سن کر روح کانپ جاتی ہے، ہر ذی شعور کا یہ دل چاہتا ہے کہ اگر اسکے بس میں ہو تو مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دے , جسے دیکھ کر دوسرے منفی دنیا کے مالک جرائم پیشہ افراد کو عبرت حاصل ہو، پولیس کا کام ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنا ہے، سزا کا تعین تو عدالتیں کرتی ہیں مگر اس وقت ایسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف سپیڈی ٹرائل کر کے عبرتناک سزا دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ویسے بھی جب سے ملک میں سزائے موت کا سلسلہ ختم ہوا ہے، قتل و غارت گری اور سنگین جرائم میں اضافہ ہوا ہے حتی کہ ہوس کے اندھے بے , راہ روی کا شکار آوارہ گرد بدقماش نوجوان کمسن بچوں، جانوروں اور اپنے ہی عزیز واقارب کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔
قصہ بدکرداری یا بدفعلی پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ ایسا گھناؤنا فعل سر انجام دینے کے بعد راز افشاہونے کے ڈر سے کمسن بچوں کی زندگی کا چراغ بھی گل کر دیتے ہیں مگر یہ نظام قدرت ہے کہ قتل کبھی چھپ نہیں سکتا ، ایک دن بکرے کی ماں کو چھری کے نیچے آنا ہوتا ہے، خدا کے حضور تاخیر تو ہو سکتی ہے مگر ناانصافی نہیں، پاکستانی معاشرے ; میں اخلاقی گراوٹ کے ذمہ دار جہاں ملزم کے اہل خانہ سرفہرست ہیں وہاں سوشل میڈیا بھی سرفہرست ہے ۔پاکستان میں مساجد کے علمائے کرام پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ , وہ صرف پنجگانہ نماز کی ادائیگی پر جنت کی نوید کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنے کی بھی تبلیغ کریں، پاکسان میں بے راہ روی کے شکار ملزمان کی اکثریت والدین کی عدم توجہی کا شکار ہوتے ہیں اور وہ انکی قابل اعتراض سرگرمیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ اہل محلہ و علاقہ انکے ڈر اور خوف سے انہیں روکنے اور ٹوکنے کی جرات نہیں کرتے اور اپنا راستہ تبدیل کر کے گزر جاتے ہیں , جبکہ ایک خوبصورت معاشرے بلکہ مسلم معاشرے میں یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث نوجوانوں کو پیار، محبت کے ساتھ صرا ط مستقیم پر چلنے کی تبلیغ کریں اور ان کے والدین کو آگاہ کیا جائے مگر بدقسمتی سے ہم سب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
تھانہ دولت نگر کے علاقے میں گھر سے مسجد جا کر سپارہ پڑھنے والے ایک گیارہ سالہ کمسن بچے کی نعش گندے نالے سے برآمد ہوئی, جس کے ایک ہاتھ میں سپارہ بھی تھاجبکہ سر پر پہنی ٹوپی بھی گندے نالے میں پڑی تھی، اس کمسن بچے کی نعش ملنے پر علاقہ میں ایک کہرام مچ گیا۔ ایس ایچ او دولت نگر عبد الرحمان ڈوگہ نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے اور بچے کی شناخت کیلئے ارد گردکے دیہات کی مساجد میں اعلانات کرائے گئے تو معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کمسن بچہ ہاشم خان ولد لعل خان قوم پٹھان حال مقیم خانووال کا بیٹا ہے جو گھر سے ; مسجد سپارہ پڑھنے گیا مگر نہ مسجد پہنچا اور نہ ہی گھر ۔۔۔اہل خانہ اسے اپنے طو رپر تلاش کرتے رہے مگر اسکی نعش مل گئی۔۔۔ کمسن گیارہ سالہ بچے ناز ولی کا یہ اندھا قتل تھا جسے ٹریس کرنا انتہائی مشکل تھا، اس المناک واقعہ کی; اطلاع ایس ایچ او عبد الرحمان ڈوگہ جو بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں نے اپنے لیے اسے ایک چیلنج تصور کیا اور فورا ڈی پی او آفس میں پی آر او چوہدری اسد گجر ایڈووکیٹ کو حالات سے آگاہ کر دیا جنہوں نے سید توصیف حیدر ; ڈی پی او جو اس وقت نماز عشاء کی ادائیگی میں مصروف تھے کو اس المناک واقعہ سے آگاہ کیا تو انکی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور خدا کے حضور قاتل کی گرفتاری کیلئے دعا مانگی۔۔
پولیس سمیت ہر شہری کی آنکھیں نمناک تھیں۔۔۔ سب کی دعائیں رنگ لائیں۔۔۔ تھانہ دولت نگر کے ایس ایچ او عبد الرحمان ڈوگہ نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر گیارہ سالہ بچے کے قاتل علی رضا کو گرفتار کر لیا جس نے اس دلخراش واقعہ کی ذمہ داری قبول کرکے واردات کی تفصیلات سے آگاہ کردیا کہ کس طرح گیارہ سالہ ناز ولی اس سے ہاتھ جوڑ کر زندگی کی بھیک مانگتا رہا اور کس طرح اس نے مسجد سپارہ پڑھنے کیلئے جانیوالی ناز ولی کو سپارے سمیت گندے نالے میں پھینکا تاکہ ثابت ہو سکے کہ بچہ نالے میں خود گرا ہے۔۔۔ ناز ولی تو; گھر سے مسجد سپار ہ پڑھنے گیا اور درندگی کا شکا رہو گیا۔۔ شہید ہوا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک وحشی درندے ہمارے کمسن بچوں کو اپنی ہوس اور درندگی کا شکار بناتے رہیں گے ؟؟؟کیا ملزمان اکیلے ہی اسکے ذمہ دار ہیں ؟؟؟ پولیس کب تک کمسن بچوں کو بدفعلی کا شکار بنا کر قتل ہونیوالے ان خوبصورت اور معصوم بچوں کا / پوسٹ مارٹم کراتی رہے گی؟؟؟ اس سوال کا جواب تو شاید کسی کے پاس نہ ہو مگر والدین اور اہل محلہ بے راہ روی کا شکار نوجوانوں کی اصلاح تو کر سکتے ہیں۔۔۔ آج ناز ولی شہید ہوا ہے تو کل کسی اور کے بچے کی باری ہو سکتی ہے۔۔۔ ہمارے مسلم معاشرے میں ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔۔۔ ان سطور میں یہ توصیف حیدر ڈی پی او ، اورچوہدری اسد گجر ایڈووکیٹ پی آر او اور بالخصوص عبد الرحمان ڈوگہ کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے، جو کسی بھی سنگین جرم کے سرزد ہونے کے بعد اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک ملزم گرفتار نہ ہو جائے۔۔ گجرات پولیس میں عبد الرحمان ڈوگہ جیسے ایس ایچ او حضرت ہی متاثرین جرائم کے آنسو پونچھ سکتے ہیں۔۔۔ وہاں ایسے جرائم کے سرزد ہونے سے قبل علاقہ کے بدقمار اور اوباش نوجوانوں کو کھلی چھٹی دینے سے قبل ہی پابندسلاسل کر کے دلخراش واقعات کی روک تھام کر سکتے ہیں ۔۔۔
سید توصیف حیدر ڈی پی او کے حکم پر اسد گجر پی آر نے سوشل میڈیا پر گروپ بنا کر اسلحہ کی نمائش اور جرائم کی ترغیب دینے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو سینکڑوں کم عمر لڑکے گرفتار ہوئے، والدین حلف نامے اور گواہ لیکر ڈی پی او دفتر پہنچ گئے اور بچوں کے بے گناہ ہونے کا واویلا شروع کر دیا۔۔۔حقیقی معنوں میں ڈی پی او آفس کی پی آر او برانچ جو ایسے ہی پوشیدہ جرائم کے خلاف ہر وقت متحرک رہتی ہے ۔۔۔وہ کردار ادا کر رہی ہے , جو والدین اور علاقہ کے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔۔۔ بلاشبہ انصاف فراہم کرنیوالے اپنی عافیت سنوار رہے ہیں اور راشی اپنے لیے جہنم کا ایندھن اکٹھا کر رہے ہیں ۔۔۔تھانہ بی ڈویژن کے ایس ایچ او اعجاز بھٹی نے شہری علاقہ سے ایسے ہی معاشرے کے ناسوروں کے خلاف/ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔۔۔ آوارہ گرد، بے راہ روی کا شکار نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔۔۔۔ اعجاز بھٹی انسپکٹراپنے علاقے کی گلی محلوں میں ایسے ہی نوجوانوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔۔۔ ایسے ہی احکامات ڈی پی او کی طرف سے دیکر ایس ایچ او حضرات کو دیے گئے ہیں کہ جرم کے سرزد ہونے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ جرم کو سرزد ہی نہ ہونے دیا جائے۔.. ۔۔غیب کا علم تو خداوندکریم ہی جانتا ہے مگر پولیس سمیت ہر شہری یہ تو محسوس کر سکتا ہے, کہ کس علاقہ سے خوشبو اور کس علاقہ سے تعفن اٹھ رہا ہے؟ خداوند / کریم ناز ولی کے لواحقین اور والدین کو صبر ; اور ناز ولی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو ملکر ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
Comments
Post a Comment
Please do not enter any spam link in the comment box.